رسائی کے لنکس

چالیس فی صد آجر ’جینریشن زی‘ گریجویٹس کو ملازم رکھنا نہیں چاہتے، سروے


چالیس فی صد آجر نوجوان گریجوایٹس کو ملازمت دینا نہیں چاہتے۔
چالیس فی صد آجر نوجوان گریجوایٹس کو ملازمت دینا نہیں چاہتے۔

امریکہ میں کمپنیوں اور اداروں کے ہر 10 میں سے تقریباً 4 اعلیٰ عہدے دار حالیہ عرصے میں ’جینریشن زی‘(یا زیڈ) کےکالج ڈگری مکمل کرنے والے نوجوانوں کو ملازمت دینے سے گریز کرتے ہیں کیونکہ ان کے خیال میں وہ پیشہ ورانہ زندگی کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

’جنریشن زی‘ ان افراد کو کہا جاتا ہے جو 1997 اور 2012 کے درمیان پیدا ہوئے ہیں۔

دسمبر 2023 میں کیے گئے اس سروے میں ایسے 800 امریکی ڈائریکٹرز اور ایگزیکٹوز کو شامل کیا گیا تھا جو اپنی کمپنیوں اور اداروں کے لیے نئے ملازم رکھنے کا کام کرتے ہیں۔

پانچ میں سے ایک آجر نے سروے میں بتایا کہ حال ہی میں گریجوایٹ ہونے والا ایک نوجوان ملازمت کے انٹرویو کے لیے اپنے والدین کو بھی ساتھ لایا تھا۔

21 فی صد آجروں کا کہنا تھا کہ ورچوئل انٹرویو کے لیے بلائے گئے نوجوانوں میں ایک ایسا بھی تھا جس نے کیمرہ آن کرنے سے انکار کر دیا۔

آجروں نے یہ شکایت بھی کی کہ انٹرویو دینے والے نوجوانوں نے آنکھیں ملا کر بات کرنے کی کوشش کی، غیر مناسب لباس پہنا اورنامناسب زبان استعمال کی۔

واشنگٹن سے تعلق رکھنے والے مائیکل کونرز، جو اکاؤنٹگ اور ٹیکنالوجی کے شعبوں کی ملازمت کے لیے تازہ گریجوایٹ نوجوانوں کے انٹرویوز کرتے ہیں، کہتے ہیں کہ اس سروے کے نتائج ان کے لیے حیران کن نہیں ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ حتمی بات یہ ہے کہ نوجوانوں میں سنجیدگی کی کمی نظر آتی ہے اور یہ بھی معلوم نہیں ہے کہ آیا وہ یہ نوکری چاہتے بھی ہیں یا محض انٹرویو دینا چاہتے ہیں۔

ہر پانچ میں سے ایک آجر نے بتایا کہ انٹرویو پر آنے والے بعض نوجوان اپنے والدین کے ساتھ آئے۔
ہر پانچ میں سے ایک آجر نے بتایا کہ انٹرویو پر آنے والے بعض نوجوان اپنے والدین کے ساتھ آئے۔

کونرز کا واسطہ کبھی ایسے امیدوار سے نہیں پڑا جس نے ورچوئل انٹرویو کے لیے اپنا کیمرہ آن کرنے سے انکار کیا ہو، لیکن آن لائن انٹرویو زکے دوران ان کا سابقہ ایسے نوجوانوں سے پڑتا رہا ہے جو طے شدہ انٹرویو کے لیے غیر پیشہ وارانہ ماحول میں موجود تھے۔ مثال کے طور پر وہ کسی شاپنگ مال کے باہر کھڑے تھے۔

نیویارک کے ایتھاکا کالج کے اسٹریٹجک کمیونیکیشن کی پروفیسر ڈیان گائیسکی اور کونرز دونوں ہی اس بات پر متفق ہیں کہ عالمی وبا کووڈ۔19 نے حالیہ کالج گریجوایٹس کی نشوونما اور بلوغت و بالیدگی کو متاثر کیا ہے۔

کئی آجروں نے بتایا کہ انٹرویو کے لیے آنے والے کئی فریش گریجوایٹ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ نوکری کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں اور شغل کے طور پر انٹرویو دے رہے ہیں۔
کئی آجروں نے بتایا کہ انٹرویو کے لیے آنے والے کئی فریش گریجوایٹ کا انداز ایسا تھا جیسے وہ نوکری کے لیے سنجیدہ نہیں ہیں اور شغل کے طور پر انٹرویو دے رہے ہیں۔

گائیسکی کا کہنا تھا کہ ان نوجوانوں کا ہائی اسکول میں آخری سال بہت پریشان کن تھا۔ ان کی اسکول گریجوایشن روایتی انداز میں نہیں ہوئی۔ انہیں روایتی الوادعی تقریبات اور پارٹیاں اور اس طرح کی دوسری چیزیں دیکھنے کو نہیں ملیں۔

انہیں عمومی طور پر کالج میں جانے سے قبل موسم گرما کے دوران کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اور حتی کہ جب وہ کالج میں داخل ہوئے تو انہیں مہمان مقرر، انٹرن شپ اور بیرون ملک تعلیم جیسے مواقع بھی میسر نہیں آئے۔ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کی وجہ سے انہیں اس طرح کی چیزیں واقعتاً دستیاب نہیں تھیں۔

وہ کہتی ہیں کہ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ طالب علموں کے پاس عملی دنیا میں خود کو شامل کرنے کی صلاحیت کے بارے میں اعتماد کی کمی ہے۔

گائیسکی کا کہنا ہے کہ طالب علموں کو کالج میں اپنی تعلیم کے ایک حصے کے طور پر ایسی چیزوں سے بھی گزرنے کا موقع ملتا ہے جو انہیں کیریئر کے لیے تیار کرتی ہیں ۔ وہ یہ تجربہ کلاس روم سے باہر حاصل کرتے ہیں، مثال کے طور پر اپنے سے مختلف لوگوں سے تعلق بنانا، کمیونٹی کے پراجیکٹس پر کام کرنا اور انٹرن شپ کرنا۔ مگر کرونا وبا کی وجہ سے یہ سب کچھ نہیں ہو سکا۔

سروے میں شامل 38 فیصد آجروں کا کہنا تھا کہ وہ پرانے کارکنوں کے مقابلے میں کالج کے تازہ گریجویٹس کو ملازم رکھنے سے گریز کرتے ہیں۔ اور یہ کہ وہ پرانے کارکنوں کو زیادہ معاوضہ یا مزید فوائد مثال کے طور زیادہ ٹیلی ورک کی اجازت دینے کو تیار ہیں۔

کئی آجروں نے بتایا کہ انٹرویو کے دوران بعض نوجوانوں نے غیر معقول تنخواہ کا مطالبہ کیا۔
کئی آجروں نے بتایا کہ انٹرویو کے دوران بعض نوجوانوں نے غیر معقول تنخواہ کا مطالبہ کیا۔

سروے میں شامل تقریباً نصف آجروں کا کہنا تھا کہ انہیں کالج کے ایک تازہ گریجویٹ کو برطرف کرنا پڑا ۔ 63 فیصد آجروں نے بتایا کہ انہوں نے جن فریش کالج گریجوایٹس کو ملازم رکھا تھا ، وہ اپنے کام کا بوجھ نہیں سنبھال سکتے ہیں۔ 61 فی صد نے کہا کہ ملازم رکھے گئے تازہ گریجوایٹ کام کرنے میں عموماً تاخیر کر تے ہیں۔

59 فی صد آجروں نے بتایا کہ وہ اکثر ڈیڈ لائن پر پورے نہیں اترتے، اور 53 فی صد کا کہنا تھا کہ نوجوان نئے کارکن میٹنگز میں اکثر اوقات دیر سے آتے ہیں ۔

کونرز کہتے ہیں کہ اگر یہ نوجوان کارکن دفتر میں زیادہ وقت گزاریں تو انہیں اپنے کام کا بوجھ سنبھالنے کابہتر موقع میسر آ سکتا ہے۔

اس موضوع پر بات کرتے ہوئے کہ گھر سے کام کرنے والے نوجوان کارکنوں کو دفتر واپس کیسے لایا جا سکتا ہے، کونرز کا کہنا تھا کہ انہیں اپنے کیریئر میں سیکھنے اور ترقی کرنے کے قابل ہونے کے لیے رہنمائی کی ضرورت ہے جو انہیں دفتر میں حاصل ہو سکتی ہے۔

گائیسکی کا کہنا ہے کہ انہیں کالج کے طالب علموں کی ذہنی صحت کے مسائل میں اضافے کا مشاہدہ ہوا ہے۔جس کی وجہ سے پروفیسر کلاس میں حاضری کے بارے میں زیادہ سختی نہیں کرتے اور ان کے اسانمنٹس کی مقررہ تاریخوں کے بارے میں لچک کا مظاہرہ کر کے سہولت فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔

پاکستان ملازمت پیشہ خواتین کے لیے کتنا فرینڈلی ملک ہے؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:37 0:00

کونرز کہتے ہیں کہ اگرچہ کووڈ۔19 کے پھیلاؤ کے اثرات کی وجہ سے نئی نسل کی، جسے جنریشن زیڈ (امریکہ میں زی) کہا جاتا ہے، عملی زندگی کے لیے تیاری نہیں ہو سکی ہے، لیکن ہم یہ رجحان کووڈ سے کئی برس پہلے سے دیکھ رہے ہیں۔

وہ کہتے ہیں کہ ہم نوجوانوں کو زیادہ مورد الزام ٹہرا رہے ہیں لیکن آپ جانتے ہیں کہ یہ دنیا اکثرا وقات معاف کرنے والی جگہ ثابت نہیں ہوتی۔اس لیے نوجوان یہ بات جتنی جلد سمجھ لیں گے ، ان کے طویل مدتی کیریئر کے لیے یہ اتنا ہی بہتر ہو گا۔

کونرز کا یہ بھی کہنا تھا کہ جن نوجوانوں کے ساتھ انہیں کام کا موقع ملا ہے ان میں ایسے بھی تھے جو کام اور زندگی کے درمیان توازن رکھنا چاہتے تھے۔

ان کا کہنا تھا کہ یہ نسل اپنے مشاغل کی زیادہ فکر کرتی ہے اور اس کے لیے لچک دار رویہ رکھتی ہے۔ وہ پیسوں کمی یا اپنے کیریئر میں ترقی کی زیادہ پروا نہیں کرتی اور وہ جس مقام پر ہیں وہاں طویل عرصے تک رہنا چاہتے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے ہر کوئی لمحہ موجود میں جی رہا ہے۔

سروے میں شامل آدھے آجروں کا کہنا ہے کہ انہوں نے حال میں جن فریش کالج گریجوایٹس کا انٹرویو کیا انہوں نے غیر معقول معاوضے کا مطالبہ کیا۔ گائیسکی کا خیال تھا کہ ہو سکتا ہے کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ نوجوان پچھلی نسلوں کے مقابلے میں زیادہ باخبر ہیں ۔

گائیسکی نے اپنی بات آگے بڑھاتے ہوئے کہا کہ نئی نسل نے کالجوں میں اس بارے میں بہت سن رکھا ہے کہ ارب پتی کارپوریشنز کس طرح کارکنوں کا استحصال کرتی ہیں اور نوجوان چاہتے ہیں کہ ان سے منصفانہ برتاؤ کیا جائے۔

(وی او اے نیوز)

فورم

XS
SM
MD
LG