پاکستان کے دفترِ خارجہ کی جانب سے جمعیت علمائے اسلام (ف) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن کے دورۂ کابل سے لاتعلقی کے اظہار پر ماہرین مختلف آرا کا اظہار کر رہے ہیں۔
بعض ماہرین کہتے ہیں کہ حکومت کی حمایت کے بغیر اس دورے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا جب کہ بعض مبصرین کے بقول مولانا افغان طالبان میں اثر و رسوخ رکھتے ہیں اس دورے سے لامحالہ دونوں ملکوں کے تعلقات پر مثبت اثر پڑے گا۔
جمعرات کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرا بلوچ نے مولانا فضل الرحمٰن کے دورے کو اُن کا نجی معاملہ قرار دیتے ہوئے مولانا کی طالبان حکام سے ملاقاتوں پر تبصرے سے گریز کیا تھا۔
مولانا فضل الرحمٰن نے ایسے وقت میں کابل کا دورہ کیا ہے جب پاکستان اور افغانستان کی طالبان حکومت کے درمیان تعلقات میں مہاجرین کی واپسی اور کالعدم تحریکِ طالبان (ٹی ٹی پی) کے معاملے پر سرد مہری پائی جاتی ہے۔
بعض ماہرین اس توقع کا اظہار کر رہے تھے کہ پاکستان میں عام انتخابات سے قبل ٹی ٹی پی کی کارروائیوں کو روکنے کے لیے مولانا فضل الرحمٰن افغان طالبان سے بات کریں گے۔
پاکستان کو یہ گلہ رہا ہے کہ افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کے جنگجو سرحد پار کر کے پاکستان میں دہشت گردی کرتے ہیں۔ لہذٰا افغان طالبان کو ان کے خلاف مؤثر کارروائی کرنی چاہیے۔ تاہم افغان طالبان حکومتِ پاکستان کے اس الزام کو مسترد کرتے ہوئے کہتے رہے ہیں کہ افغانستان کی سرزمین کسی دوسرے ملک کے خلاف استعمال ہونے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
ترجمان دفترِ خارجہ نے واضح کیا کہ ٹی ٹی پی کے ساتھ کسی بھی قسم کے مذاکرات نہیں کیے جائیں گے اور اس حوالے سے حکومت کی پالیسی واضح ہے۔
ممتاز زہرا بلوچ کا مزید کہنا تھا کہ افغان حکام کو ٹی ٹی پی سمیت تمام دہشت گرد عناصر کے خلاف مؤثر کارروائی کے ساتھ ساتھ پاکستان کو مطلوب جنگجوؤں کو اس کے حوالے کرنا چاہیے۔
مولانا فضل الرحمٰن اتوار کو اعلٰی سطحی وفد کے ہمراہ کابل پہنچے تھے، جہاں وہ طالبان حکومت کے عبوری وزیرِ اعظم ملا حسن اخوند، نائب وزیرِ اعظم، طالبان حکومت کے وزیرِ خارجہ سمیت دیگر حکام سے ملاقاتیں کر چکے ہیں۔
یہ بھی اطلاعات تھیں کہ مولانا فضل الرحمٰن نے طالبان کے سپریم کمانڈر ملا ہبت اللہ اخوندزادہ سے بھی ملاقات کی ہے، تاہم اس کی آزاد ذرائع سے تصدیق نہیں ہو سکی تھی۔
'بیک ڈور ڈپلومیسی کا راستہ کھلا رہتا ہے'
پشاور یونیورسٹی کے شعبہ انٹرنیشنل ریلیشنز کے چیئرمین حسین شہید سہروردی کہتے ہیں کہ دورۂ کابل سے قبل مولانا فضل الرحمٰن کو سرکاری سطح پر بریفنگ دی گئی تھی۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ دونوں ممالک کے تعلقات کو معمول پر لانے کے لیے مولانا ایک بہترین انتخاب ہیں کیوں کہ افغان طالبان اور مولانا کی جماعت دیو بند مکتبِ فکر سے تعلق رکھتے ہیں اور نظریاتی طور پر بھی ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
ان کے بقول یہ ایک معمول کا طریقۂ کار ہے کہ جب دو ممالک کے درمیان براہ راست تعلقات کشیدہ ہوں تو ایسے حالات میں بیک ڈور ڈپلومیسی کا سہارا لیا جاتا ہے۔
اُن کے بقول پاکستان اور بھارت کے خراب تعلقات کے دوران بھی بیک ڈور ڈپلومیسی کا طریقہ اختیار کیا جاتا رہا ہے۔
حسین سہید سہروردی کے مطابق پاکستان واپسی پر مولانا فضل الرحمٰن طالبان حکومت کے تحفظات بھی پاکستانی حکومت کے سامنے رکھیں گے۔
اُن کے بقول گو کہ حکومتِ پاکستان اس دورے سے لاتعلقی کا اظہار کر رہی ہے، لیکن یہ ایک اعلٰی سطحی دورہ تھا جس کی اہمیت اپنی جگہ ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور افغان اُمور کے ماہر داؤد خٹک کہتے ہیں کہ اس دورے سے یہ توقع کرنا کہ اس سے پاکستان میں امن و امان کی صورتِ حال بہتر ہو گی تو یہ محض خام خیال ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ مولانا طالبان حکومت کو کبھی بھی ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کا نہیں کہہ سکتے کیوں کہ اس کا مطلب ٹی ٹی پی سے دُشمنی مول لینا ہو گا۔
اُن کے بقول داعش خراساں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے جلسے پر خود کش حملہ کر چکی ہے، لہذٰا مولانا کبھی نہیں چاہیں گے کہ ٹی ٹی پی بھی ان کے خلاف ہو جائے۔
خیال رہے کہ گزشتہ برس جولائی میں جمعیت علمائے اسلام (ف) کے باجوڑ میں ورکرز کنونشن میں خود کش حملے میں 50 سے زائد افراد ہلاک اور 100 سے زائد زخمی ہو گئے تھے۔
شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ (داعش) نے حملے کی ذمے داری قبول کی تھی۔
خیال رہے کہ مولانا فضل الرحمٰن کے دورۂ کابل کے دوران ہی باجوڑ اور کوہاٹ میں دہشت گردی کے مختلف واقعات میں 10 سے زائد پولیس اہلکار جان کی بازی ہار گئے۔
داؤد خٹک کہتے ہیں کہ افغان طالبان ٹی ٹی پی کے خلاف کارروائی کے مطالبے پر پاکستان پر واضح کر چکے ہیں کہ یہ اس کا اندرونی معاملہ ہے۔
داؤد خٹک نے خدشہ ظاہر کیا کہ ٹی ٹی پی اپنے حملوں میں کمی نہیں لائے گی کیوں کہ جنگ ہی اس کی لائف لائن ہے۔
فورم