ایران کی جانب سے پاکستان کے صوبہ بلوچستان میں شدت پسند تنظیم 'جیش العدل' کے مبینہ ٹھکانے پر حملے کے بعد پاکستان نے تہران سے اپنا سفیر واپس بلانے کا اعلان کر دیا ہے جب کہ دونوں ملکوں کے درمیان تمام طے شدہ سرکاری دورے بھی منسوخ کر دیے گئے ہیں۔
بدھ کو پاکستانی دفترِ خارجہ کی جانب سے جاری کیے گئے بیان میں کہا گیا ہے کہ ایران نے بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پاکستان کی خود مختاری کا احترام نہیں کیا۔ اسلام آباد نے ایران کے پاکستان کے لیے سفیر کو بھی واپس نہ آنے کی ہدایت کی ہے۔ اسلام آباد کے لیے ایرانی سفیر ان دنوں تہران میں موجود ہیں۔
واضح رہے کہ ایرانی فورسز نے منگل کی شب بلوچستان کے ضلع پنجگور کے سرحدی گاؤں سبز کوہ میں میزائل حملہ کیا تھا، پاکستانی دفترِ خارجہ نے دعویٰ کیا تھا کہ حملے میں دو بچے ہلاک جب کہ تین بچیاں زخمی ہوئی ہیں۔
دوسری جانب پاکستان کی سیاسی جماعتوں اور دیگر طبقات کی جانب سے بھی اس معاملے پر ردِعمل سامنے آ رہا ہے۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ اس نے بلوچستان کے علاقے سبز کوہ میں بلوچ عسکریت پسند گروپ 'جیش العدل' نامی تنظیم کے دو ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
سرحدی معاملات بشمول اسمگلنگ اور سرحد کے اطراف دہشت گردوں کے ٹھکانوں کے معاملے پر پاکستان اور ایران کے تعلقات میں پہلے بھی تناؤ آتا رہا ہے۔
پاکستان کے سیاسی و صحافتی حلقوں میں ایران کے حملے پر ردِ عمل کا سلسلہ جاری ہے جب کہ چین نے پاکستان اور ایران پر زور دیا ہے کہ وہ تحمل سے کام لیں۔
چینی وزارتِ خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے بدھ کو نیوز بریفنگ میں کہا کہ ہم فریقین سے تحمل کا مظاہرہ کرنے، کشیدگی میں اضافے کا باعث بننے والے اقدامات سے گریز کرنے اور امن و استحکام کو برقرار رکھنے کے لیے مل کر کام کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہم ایران اور پاکستان دونوں کو قریبی پڑوسی اور بڑے اسلامی ممالک سمجھتے ہیں۔
بدھ کو ڈیوس میں عالمی اقتصادی فورم کے دوسرے روز پاکستان کے نگراں وزیرِ اعظم انوار الحق کاکڑ نے ایران کے وزیرِ خارجہ حسین امیر عبدالہیان سے ملاقات کی ہے۔ تاہم ملاقات کے بعد سامنے آنے والی تفصیلات میں حملے کا کوئی ذکر شامل نہیں ہے۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی 'ارنا' کے مطابق پاکستان کے وزیرِ اعظم نے دونوں ملکوں کے تعلقات کی اہمیت پر بات کی اور کہا کہ دونوں مسلمان ملک دہشت گردی جیسے مشترکہ چیلنج کا سامنا کر رہے ہیں جس پر قابو پانے کے لیے مشترکہ کوششوں کی ضرورت ہے۔
ایران کے وزیرِ خارجہ نے ملاقات کے دوران کہا کہ پاکستان اور ایران کے تعلقات گہرے اور تاریخی ہیں اور ایران پاکستان کے ساتھ اپنے دو طرفہ تعلقات کو وسعت دینے کا خواہش مند ہے۔
'یہ اچھی ہمسائیگی کے اُصولوں کے خلاف ہے'
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اپنے ردِعمل میں کہا کہ وہ ایران کی جانب سے پاکستان کی خودمختاری پر حملے پر حیران ہیں۔
سوشل میڈیا پلیٹ فارم 'ایکس' (سابقہ ٹوئٹر) پر اپنے بیان میں شہباز شریف نے کہا کہ ایران کا میزائل حملہ دوستی کی روح اور اچھی ہمسائیگی کے اُصولوں کے خلاف ہے۔
پاکستان تحریکِ انصاف (پی ٹی آئی) نے بھی ایرانی حملے کی مذمت کی ہے۔ 'ایکس' پر جاری بیان میں پی ٹی آئی نے پاکستان کی نگراں حکومت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے فوری وضاحت طلب کی ہے۔
بیان میں کہا گیا ہے کہ بھارت اور افغانستان کے بعد ایران سے تعلقات میں سنگین بگاڑ نہایت تشویش ناک اور ناکام ترین خارجہ و دفاعی پالیسی کا شاخسانہ ہے۔
پی ٹی آئی کے بیان میں کہا گیا ہے کہ فروری 2019 میں بھارت کی جانب سے پاکستان کی فضائی حدود کی خلاف ورزی پر اس وقت کے وزیرِ اعظم عمران خان کی قیادت میں دُشمن کو منہ توڑ جواب دیا گیا تھا۔
پاکستان پیپلز پارٹی کی رہنما سینیٹر شیری رحمان نے 'ایکس' پر اپنے ردِعمل میں کہا کہ ایسے وقت میں جب غزہ میں جاری جنگ کی وجہ سے مسلم ممالک کو متحد ہونے کی ضرورت ہے، ایران کی جانب سے کیا گیا حملہ دونوں ملکوں کے تعلقات کو متاثر کرے گا۔
شیری رحمان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے ایران کے ساتھ سرحد پر ہمیشہ صبر و تحمل سے کام لیا ہے، لیکن اگر دوسری طرف سے ذمے داری کا مظاہرہ نہ کیا گیا تو پھر پاکستان بھی جواب دینے پر مجبور ہو گا۔
سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے دفاع کے چیئرمین مشاہد حسین سید کہتے ہیں کہ ایسے وقت میں جب پاکستان کو پڑوسیوں کے ساتھ مشکل تعلقات کا سامنا ہے، پاکستان کو چین کے ساتھ اپنے رشتے مزید مضبوط کرنے چاہئیں۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار سید طلعت حسین نے 'ایکس' پر اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں کوئی وزیرِ داخلہ نہیں ہے اور ملک کے وزیرِ دفاع کو بھی کوئی نہیں جانتا۔ وزیرِ اعظم یورپ کے 10 روزہ دورے سے لطف اندوز ہو رہے ہیں جب کہ ملک کو ہر طرف سے حملوں کا سامنا ہے۔
سینئر صحافی اور تجزیہ کار نصرت جاوید کہتے ہیں کہ پاکستان کو اس معاملے پر آخری وقت تک سفارت کاری کا راستہ اختیار کرنا چاہیے۔ سوچے سمجھے بغیر جواب دینے کا کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔
مقامی افراد کیا کہتے ہیں؟
مقامی لیویز انچارج عبد الحمید نے وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضٰی زہری کو بتایا کہ منگل کی شب انہیں اطلاع ملی کی مبینہ طور پر پنجگور کے سرحدی علاقے سبز کوہ میں ایک مکان پر فضائی حملہ ہوا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ سبز کوہ کا علاقے پنجگور سے تقریباً 70 کلو میٹر جب کہ ایرانی سرحد سے 45 کلو میٹر کے فاصلے پر واقعہ ہے۔
عبد الحمید کے بقول سبزہ کوہ کے ایک مقامی گاؤں میں ادریس نامی شخص کے مکان پر فضائی حملے کے نتیجے میں دو بچے ہلاک جب کہ دیگر پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
اُن کے بقول اس گاؤں میں پانچ سے چھ گھر ہیں اور یہاں کے رہائشی گلہ بان ہیں اور بکریاں چرا کر اپنا روزگار چلاتے ہیں۔
ادریس بلوچ نے بتایا کہ یہ معلوم نہیں کہ حملہ کہاں سے ہوا اور کس نے کیا مگر اس سے ان گھر کے دو افراد ہلاک جب کہ پانچ زخمی ہوئے ہیں۔
پنجگور کے ایک مقامی صحافی عبد الواحد بلوچ نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ ایران کی جانب سے دعویٰ کیا گیا ہے کہ کالعدم تنظیم 'جیش العدل' کے ٹھکانے پر حملہ کیا گیا ہے۔ تاہم سبز کوہ میں مقامی عینی شاہدین نے بتایا کہ یہ حملہ عام لوگوں کے مکانات اور مسجد پر کیا گیا۔
فورم