پاکستانی نوجوانوں کی اکثریت نے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔
نوجوانوں نے اس رائے کا اظہار وائس آف امریکہ کے ایک سروے میں کیا ہے جو بین الاقوامی ادارے اپسوس کے ذریعے کرایا گیا ہے۔
سروے میں 18 سے 34 برس کے نوجوانوں سے یہ سوال کیا گیا تھا کہ اُن کے نزدیک پاکستان کو اس وقت کن بڑے چیلنجز کا سامنا ہے؟
سروے میں 70 فی صد نوجوانوں نے مہنگائی کو سب سے بڑا چیلنج قرار دیا۔ ہر تین میں سے دو مرد (66 فی صد) جب کہ ہر چار میں سے تین خواتین (76 فی صد) مہنگائی کو ملک کا سب بڑا مسئلہ سمجھتے ہیں۔
سروے کے مطابق شہری علاقوں میں 68 فی صد جب کہ دیہی علاقوں میں 72 فی صد نوجوان مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دیتے ہیں۔
ماہرین کے مطابق خواتین کی اکثریت کی جانب سے مہنگائی کو ملک کا سب سے بڑا مسئلہ قرار دینے کی وجہ یہ ہے کہ عموماً گھروں میں ماہانہ بجٹ بنانا خواتین کی ذمے داری ہوتی ہے اور گزشتہ دو برس کے دوران مہنگائی کی بلند ہوتی شرح نے خواتین کی مشکلات میں بھی اضافہ کیا ہے۔
ملک میں اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے نے پاکستان میں متوسط اور کم آمدنی والے طبقات کو بری طرح متاثر کیا ہے۔
سروے سے پتا چلتا ہے کہ مہنگائی ملک کے تمام صوبوں اور اسلام آباد کے رہائشیوں کے نزدیک یکساں طور پر ملک کا سب سے بڑا مسئلہ ہے۔
ماہر معاشیات سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ مہنگائی نے ہر گھر کا براہِ راست بجٹ متاثر کیا ہے۔
ماہر معاشیات ثنا توفیق کہتی ہیں کہ جب گھر میں خرچے کم کرنے کی بات ہوتی ہے تو اس کا اثر نوجوانوں پر بھی پڑتا ہے۔ پہلے وہ یونیورسٹی یا کالجز جانے کے لیے ٹیکسی میں سفر کر لیتے تھے۔ لیکن اب مہنگائی کی وجہ سے بہت سے طلبہ پبلک ٹرانسپورٹ پر سفر کرنے پر مجبور ہیں۔
غربت، کرپشن اور بے روزگاری
سروے میں نوجوانوں نے غربت، کرپشن اور بے روزگاری کو بھی ملک کے بڑے مسائل قرار دیا ہے۔
سمیع اللہ طارق کہتے ہیں کہ جب شرحِ نمو گرتی ہے تو اس سے لامحالہ روزگار کے مواقع بھی کم ہوتے ہیں۔
ان کے بقول سروے میں وہ نوجوان بھی شامل ہیں جو گریجویشن کر چکے ہیں اور اب ملازمت کے خواہش مند ہیں، لیکن اُنہیں ملک میں روزگار کے زیادہ مواقع میسر نہیں۔
اُن کے بقول کرپشن چوں کہ پاکستان کے بڑے مسائل میں سے ایک ہے اور سوشل میڈیا پر بھی اس پر بات ہوتی ہے، لہذٰا سروے میں نوجوانوں نے اسے بھی بڑا مسئلہ قرار دیا ہے۔
ثنا توفیق کہتی ہیں کہ نوجوانوں کو اول تو ملازمتیں دستیاب نہیں اور اگر ملازمت ملتی بھی ہے تو تنخواہیں بہت کم ہیں۔ اُن کے بقول یہی وجہ ہے کہ پھر نوجوان ملک سے باہر جانے کا سوچتے ہیں۔
پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں انتخابات میں کامیابی کے بعد مہنگائی کو کنٹرول کرنے کے دعوے کر رہی ہیں۔ تاہم ماہرین کہتے ہیں کہ عالمی حالات اور دنیا میں جاری تنازعات کا اثر پوری دنیا پر مہنگائی کی صورت میں پڑ رہا ہے اور پاکستان کے لیے بھی ان اثرات سے بچنا مشکل ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ پاکستان میں نوجوان ووٹرز کی بڑھتی ہوئی تعداد کے پیشِ نظر سیاسی جماعتوں کو بھی نوجوانوں کی آرا کو اہمیت دینا ہو گی۔ کیوں کہ سوشل میڈیا اور ٹیکنالوجی کے بڑھتے استعمال اور پاکستان میں حالیہ عرصے میں پیش آنے والے اہم سیاسی واقعات کے بعد نوجوان ووٹر بھی خاصا متحرک ہوا ہے اور اپنا حقِ رائے استعمال کرنے کے لیے پرجوش ہے۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے اعداد و شمار پر نظر دوڑائی جائے تو پاکستان میں 12 کروڑ 85 لاکھ رجسٹرڈ ووٹرز میں سے 44 فی صد ووٹرز کی عمر 18 سے 35 سال کے درمیان ہے۔ لہذٰا ووٹرز کی بڑی تعداد یا تو کالجز یا یونیورسٹی میں زیرِ تعلیم ہے یا گزشتہ چند برسوں کے دوران ہی جاب مارکیٹ میں داخل ہوئی ہے۔
پاکستان میں اجناس، دالوں، سبزیوں، پھلوں، چکن اور انڈوں کی قیمتوں میں حالیہ دنوں میں اضافہ ہوا ہے۔ عوامی حلقوں کا یہ گلہ ہے کہ پیٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں کمی کے باوجود اس کا اثر اشیائے خور و نوش کی قیمتوں پر نہیں پڑ رہا۔
ماہرین سمجھتے ہیں کہ پاکستان عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) کے پروگرام میں ہے جس کی کڑی شرائط کی وجہ سے حکومت کو بجلی اور گیس کی قیمتوں میں اضافہ کرنا پڑتا ہے۔ لہذٰا اس کا اثر پیداواری لاگت میں اضافے کی صورت میں عوام پر پڑتا ہے۔
لیکن بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ سروے میں نوجوانوں کی جانب سے مہنگائی کو سب سے بڑا مسئلہ قرار دینا اس بات کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ آنے والی حکومت سے توقع کرتے ہیں کہ وہ مہنگائی کو کنٹرول کرے گی۔
فورم