امریکہ اور برطانیہ نے منگل کی علی الصباح یمن کے حوثی باغیوں کے ٹھکانوں پر حملے کیے ہیں۔ گزشتہ دس روز میں حوثیوں کے خلاف یہ آٹھواں موقع ہے جب امریکی فوجی تنصیبات سے حوثی اہداف کو نشانہ بنایا گیا ہے۔
غزہ جنگ کے دوران تجارتی بحری جہازوں پر حملے کرنے والے اور خطے میں کشیدگی کا باعث بننے والے یمن کے حوثیوں کے خلاف امریکہ اور برطانیہ نے جنگی جہازوں، بحری جہازوں اور آبدوزوں کی مدد سے ان کے ٹھکانوں کو نشانہ بنایا ہے۔
امریکی دفاعی حکام نے کہا ہے کہ حملوں میں حوثیوں کے آٹھ مقامات پر متعدد اہداف کو نشانہ بنایا، جن میں زیرِ زمین اسٹوریج کی سہولت کے ساتھ ساتھ میزائل لانچنگ سائٹس اور حوثیوں کی نگرانی کی صلاحیتوں سے منسلک دیگر مقامات شامل ہیں۔
ان حملوں کا مقصد بحیرۂ احمر میں بین الاقوامی تجارت کی راہ میں رکاوٹ بننے والے حوثیوں کی مشرقِ وسطیٰ میں تجارتی بحری جہازوں پر حملے کرنے کی صلاحیت کو کمزور کرنا ہے۔
ایک سینئر امریکی فوجی اہلکار نے نامہ نگاروں کو بتایا کہ حملے کے مقامات کو جان بوجھ کر ہتھیاروں کے نظام کو نشانہ بنانے کے لیے منتخب کیا گیا تھا تاکہ ہلاکتوں میں اضافہ نہ ہو۔
اہلکار نے اندازہ لگایا کہ زیرِ زمین ذخیرہ کرنے کی سہولت میں 11 جنوری کو ہونے والے حملوں کے پہلے دور میں مارے جانے والے مقامات کے مقابلے میں "زیادہ جدید روایتی ہتھیار" موجود تھے۔
واضح رہے کہ بحیرۂ احمر کے راستے سے دنیا کی سمندری ٹریفک کا تقریباً 15 فی صد گزرتا ہے۔ غزہ جنگ کے آغاز کے بعد حوثیوں کے حملوں کی وجہ سے عالمی تجارت متاثر ہوئی ہے جب کہ بڑی شپنگ کمپنیاں بحری تجارت کے لیے افریقہ کے ارد گرد طویل اور زیادہ مہنگے راستے کا انتخاب کر رہی ہیں۔
'آبی گزرگاہ کی حفاظت میں ہچکچاہٹ نہں ہو گی'
امریکہ اور برطانیہ نے ایک بیان میں کہا، "یہ درست حملے، حوثیوں کے غیر قانونی، خطرناک اور غیر مستحکم کرنے والے اقدامات کے جواب میں ہیں۔"
تازہ ترین حملے آسٹریلیا، بحرین، کینیڈا اور نیدر لینڈز کی حمایت سے کیے گئے تھے۔
بیان میں مزید کہا گیا ہے کہ "ہم مسلسل خطرات کے پیش نظر دنیا کی سب سے اہم آبی گزرگاہوں میں سے ایک میں زندگیوں اور تجارت کے آزاد بہاؤ کا دفاع کرنے میں ہچکچاہٹ محسوس نہیں کریں گے۔"
فورم