"میں ایک غریب کسان ہوں، حکومت کی جانب سے متعارف کردہ گندم کی نئی قیمت میری قوتِ خرید سے بہت زیادہ ہے۔ جب تک حکومت گندم پر دی گئی سبسڈی بحال نہیں کرتی ہمارا احتجاج جاری رہے گا۔"
یہ کہنا ہے گلگت بلتستان کے ضلع نگر کے علاقے جعفر آباد سے تعلق رکھنے والے 33 سالہ منور حسین کا جو گزشہ ایک ماہ سے اپنے علاقے میں احتجاج کر رہے ہیں۔
منور حسین کے مطابق گلگت بلتسان میں زمین کم ہے جس کی وجہ سے کاشت بہت کم ہوتی ہے۔ لوگ غریب ہیں اور مہنگی گندم نہیں خرید سکتے۔
اُن کے بقول لوگوں کا تمام تر دارومدار حکومت کی جانب سے فراہم کردہ سبسڈی پر ہوتا ہے۔ احتجاج کا دائرہ پورے گلگت بلتستان تک پھیل گیا ہے اور گزشتہ تین روز سے شاہراہ قراقرم ہر قسم کی ٹریفک کے لیے بند ہے۔
یاد رہے کہ گلگت بلتستان میں گندم کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف عوامی ایکشن کمیٹی کے زیرِ انتظام یہ احتجاج تقریباً ایک ماہ قبل شروع ہوا تھا۔ جو خراب موسمی حالات کے باوجود تواتر کے ساتھ جاری ہے۔ لیکن حکومت گندم کی قیمتوں میں رعایت دینے پر تیار نہیں ہے۔
گلگت بلتستان کو رعایتی داموں گندم دینے کا فیصلہ پہلی مرتبہ 70 کی دہائی میں اس وقت کے وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو نے کیا تھا۔
گلگت بلتستان سے تعلق رکھنے والے سینئر صحافی عبدالرحمان بخاری کا کہنا ہے کہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں حکومت نے 1974 میں پہلی دفعہ گندم، مٹی کا تیل اور نمک پر سبسڈی دی تھی، بعد میں دیگر اشیا پر سبسڈی آہستہ آہستہ مختلف ادوار میں ختم کر دی گئی۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے مزید بتایا کہ گلگت بلتستان میں گزشتہ ایک ماہ سے لوگ گندم کی قیمت میں اضافے پر احتجاج کر رہے ہیں۔ ان کے مطابق حکومت نے یکطرفہ طور پر گندم کی فی کلو گرام قیمت 20 روپے سے بڑھا کر 36 روپے مقرر کر دی ہے۔
عبدالرحمان بخاری کے مطابق حکومت گندم کی سبسڈی میں بہت تیزی سے کمی کر رہی ہے جب کہ لوگوں کے لیے متبادل روزگار کے مواقع نہ ہونے کے برابر ہیں۔ ان کے مطابق گزشتہ سال حکومت نے گندم کی قیمت 11 روپے فی کلو گرام سے بڑھا کر 20 روپے کر دی تھی۔
اس وقت عوامی ایکشن کمیٹی کی جانب سے دو روزہ شٹر ڈاؤن ہڑتال کی کال دی گی تھی اور گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں میں بازار اور دکانیں بھی بند ہو گئی تھیں جس کے بعد لوگوں کی تشویش مزید بڑھ گئی ہے۔
گلگت بلتستان کے ضلع استور سے تعلق رکھنے والی سماجی کارکن ثروت صبا کا کہنا ہے کہ حکومتِ پاکستان کی جانب سے گلگت بلتستان کو فراہم کی جانے والی تمام سبسڈیز ایک ایک کر کے ختم کرنے کے پروگرام پر کام ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے مزید بتایا کہ سابق وزیرِ اعظم ذوالفقار علی بھٹو کی جانب سے فراہم کردہ سبسڈیز میں اب صرف ایک گندم ہی رہ گئی تھی اور اسے بھی عوام سے چھینا جا رہا ہے۔
ان کے بقول مٹی کا تیل، ہوائی جہاز کے ٹکٹ میں ریلیف، نمک اور حتیٰ کے خوردنی تیل پر بھی سبسڈی ختم کر دی گئی ہے۔ ان کے بقول پاکستان کے دیگر علاقوں میں جو اشیا ملتی ہیں ان کا تصور گلگت بلتستان میں بمشکل ہی نظر آتا ہے۔
ثروت صبا کے مطابق گلگت بلتستان چوں کہ پہاڑی سلسلوں پر مشتمل علاقہ ہے اور یہاں آبادی بڑھنے کے پیشِ نظر خوراک کی طلب میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
اُن کے بقول موسمیاتی تبدیلیوں کے باعث مختلف علاقوں میں سیلاب کے باعث فصلوں اور باغات کو شدید نقصان پہنچتا ہے جس کے بعد لوگوں کی آمدنی کے ذرائع بھی آہستہ آہستہ ختم ہو رہے ہیں۔ ایسے میں اگر گندم پر بھی سبسڈی ختم کر دی جاتی ہے تو اس سے لوگ مزید پریشانی کا شکار ہو سکتے ہیں۔
دوسری جانب حکومت کا کہنا ہے گلگت بلتستان میں سبسڈی کا تعین ملکی مارکیٹ کی صورتِ حال کو مدِنظر رکھ کر ہی طے کیا جاتا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے وزیرِ اعلی کے معاون خصوصی برائے اطلاعات ایمان شاہ کا کہنا ہے کہ اس وقت پنجاب میں گندم کی فی 100 کلوگرام بوری کی قیمت ساڑھے بارہ ہزار روپے ہے جب کہ گلگت بلتستان میں عوام کو 3600 روپے میں دی جا رہی ہے۔
ان کے بقول اس سے قبل یہ ریٹ 2000 روپے تھا تاہم پنجاب میں گندم کی قیمت زیادہ ہونے کا اثر یہاں پر بھی پڑا ہے۔
ایمان شاہ کے مطابق گلگت بلتستان کی حکومت عوام پر ٹرانسپورٹیشن کا بوجھ نہیں ڈال رہی ہے بصورت دیگر 3600 روپے والی بوری 9000 روپے میں دستیاب ہوتی۔
ان کے بقول نئی قیمت مقرر کرنے سے قبل علاقے کے تمام اسٹیک ہولڈرز بشمول عوامی ایکشن کمیٹی کے سرکردہ رہنماؤں کے ساتھ 40 دن تک مشاورت کی گئی جس کے بعد نئی قیمت پر اتفاق کیا گیا۔ لہذٰا یہ احتجاج بے معنی ہے۔
ایمان شاہ کے مطابق اس سے قبل گلگت بلتستان میں ایک فرد کے لیے چار کلو کے حساب سے گندم کا کوٹہ مہیا تھا۔ تاہم یکم جنوری سے اسے بڑھا کر ساڑھے چھ کلو گرام کر دیا گیا ہے۔
ان کے بقول حکومت پھر بھی عوام کے ساتھ مشاورت کے لیے تیار ہیں تاکہ انھیں موجودہ صورتِ حال میں گندم کی نئی متعین قیمت کے بارے میں اعتماد میں لے سکیں۔
چیف کوآرڈینیٹر عوامی ایکشن کمیٹی گلگت بلتستان، احسان علی ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ حکومت کے غلط فیصلوں کے باعث عوام اس شدید سردی میں سراپا احتجاج ہیں۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے اُنہوں نے مزید بتایا کہ اس وقت گلگت بلتستان میں لوڈشیڈنگ بھی عروج پر ہے، دن میں بمشکل دو سے تین گھنٹے بجلی کی فراہمی ہو رہی ہے۔
ان کے بقول وزرا کو تمام سہولتیں مہیا کی جار رہی ہیں جب کہ سارا دباؤ غریب عوام پر ہی ڈالا جا رہا ہے۔
فورم