امریکی محکمہ خارجہ کی جانب سے اسٹریٹیجی سے متعلق جاری کردہ تازہ دستاویز کے مطابق امریکہ، طالبان کنٹرول والے افغانستان میں قونصلر کی سطح کی رسائی قائم کرنے کے امکان پر احتیاط سے غور کر رہا ہے۔
یہ اقدام الگ تھلگ ہو جانے والی اسلامی حکومت کے ساتھ محدود رابطے کے لیے امریکی پالیسی میں ممکنہ تبدیلی کی جانب اشارہ ہے، جس کا مقصد سیکیورٹی، سیاست اور معیشت سے متعلق متعدد مقاصد حاصل کرنا ہے۔
اکتوبر 2023 میں منظور ہونے والی’انٹیگریٹڈ کنٹری اسٹریٹیجی افغانستان‘ میں طالبان کے ساتھ امریکیوں کے لیے قونصلر کی سطح کی رسائی، شفافیت اور جواب دہی کی وکالت کی گئی ہے۔
اس میں کہا گیا ہے کہ غیر منصفانہ طور پر حراست میں لیے گئے امریکیوں کی رہائی کے لیے ہم خصوصی صدارتی ایلچی برائے یرغمالی امور کے کام کی حمایت کرتے ہیں۔
محکمہ خارجہ کے ایک ترجمان نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ امریکہ کے موقف میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اور مستقبل قریب میں کابل میں سفارتی امورکے لیے واپسی کے کوئی منصوبے نہیں ہیں۔
ہر چند کہ اسٹریٹیجی دستاویز میں” کابل واپسی “ کی منصوبہ بندی کا ذکر ہے لیکن ترجمان نے مستقبل میں ممکنہ قونصلر سہولت کے قیام کی جگہ اور آپریشنز کے بارے میں سوالات کے جوابات نہیں دیے۔
اگست 2021 میں اس وقت کی افغان حکومت کے زوال کے بعد، امریکہ نے کابل میں اپنے سفارت خانے کو بند کر دیا تھا۔ جو دو عشروں تک افغانستان میں اسکی فوجی اور سیاسی موجودگی اور تعلق کا علامتی اختتام تھا۔
اس وقت سے امریکہ اور طالبان کے درمیان تعلق اور رابطہ افغانستان سے باہر کبھی کبھار ہونے والی میٹنگز تک محدود ہو چکا ہے جو زیادہ تر قطر کے شہر دوحہ میں ہوتی رہی ہیں جہاں امریکہ نے افغانستان کے لیے ایک نائب سفیر متعین کر رکھا ہے۔
اسٹریٹیجی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ جب تک امریکہ طالبان کی افغانستان پر حکومت کو تسلیم نہیں کرتا، امریکہکو اس سے ایسے فعال تعلقات قائم کرنے چاہئیں جو ہمارے مقاصد کو آگے بڑھائیں اور طالبان نے ہم سے جو وعدے کیے ہیں انہیں پورا کرنے کے لیے ان کی آمادگی اور صلاحیت کے بارے میں ہماری بصیرت میں اضافہ کریں۔
نئی امریکی حکمت عملی میں اسٹریٹیجک مشن کے چار شعبوں کا خاکہ پیش کیا گیا ہے۔ یہ چار شعبے انسداد دہشت گردی، معاشی امداد، افغانستان کے اندر امریکی شہریوں کی مقامی مصروفیات اور قونصلر سطح کی خدمات اور ان افغانوں کی مدد ہیں جو نقل وطن کرکے امریکہ آنا چاہتے ہیں۔
اسٹریٹیجی میں واضح کیا گیا ہے کہ واشنگٹن، افغان عوام خاص طور پر عورتوں اور لڑکیوں کے بنیادی حقوق کے لیے آواز اٹھانے کا سلسلہ جاری رکھے گا۔
امریکی عہدیدار بار بار کہہ چکے ہیں کہ طالبان کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا انحصار، جس میں عشروں سے ان کے لیڈروں پر عائد پابندیاں اٹھانا بھی شامل ہے، طالبان کی جابرانہ پالیسیوں کے ختم کیے جانے اور افغانستان میں ایک جامع متحدہ حکومت بنانے پر ہے۔
خیال رہے کہ بھارت، جاپان اور ترکیہ جیسے امریکی اتحادیوں سمیت بعض ممالک، ہر چند کہ طالبان کی عبوری حکومت کو تسلیم نہیں کرتے لیکن کابل میں ان کے سفارتی مشن موجود ہیں۔
اقوام متحدہ بھی اپنے پولیٹکل مشن سمیت افغانستان میں بدستور فعال ہے۔
وی او اے نیوز)
فورم