خبر رساں ادارے رائٹرز نے تین امریکی عہدہ داروں کے حوالے سے بتایا ہے کہ اردن میں ایک تنصیب پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجیوں کی ہلاکت کے جواب میں امریکہ نے شام اور عراق میں اہداف کو نشانہ بنانے کے لیے فضائی کاروائیاں شروع کر دی ہیں۔
اس سے قبل امریکی وزیر دفاع لائیڈ آسٹن نے جمعرات کو نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا تھاکہ امریکی افواج اردن میں ایک امریکی فوجی مرکز پر ڈرون حملے کے جواب میں پورے مشرق وسطیٰ میں ایران کی حمایت یافتہ پراکسیز کو نشانہ بنانے کی تیاری کر رہی ہیں۔ اس حملے میں تین امریکی فوجی ہلاک اور 40 سے زیادہ زخمی ہوئے تھے۔
لائیڈ آسٹن نے، یکم فروری کو پروسٹیٹ کینسر کی سرجری کی پیچیدگیوں کی وجہ سے اسپتال میں داخل ہونے کے بعد پہلی بار نامہ نگاروں سے بات کی ہے۔
انہوں نے شمال مشرقی اردن میں ٹاور 22 کے نام سے موسوم ان کوارٹرز پر حملے کو "قابل مذمت" قرار دیتے ہوئے، جہاں فوجی سو رہے تھے، کہا کہ اس طرح کے اقدامات کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
آسٹن سے جب پوچھا گیا کہ امریکہ نے مشرق وسطیٰ میں امریکی افواج پر 165 سے زیادہ حملوں کا زیادہ سختی سے جواب دینے کے لیے اب تک انتظار کیوں کیا، تو انہوں نے کہا،"اب وقت آ گیا ہے کہ ہم ماضی کے مقابلے میں ان کی اور بھی زیادہ صلاحیتیں چھین لیں۔"
امریکی وزیر دفاع نے پچھلے سال اکتوبر کے وسط میں عراق میں ایران کی حمایت یافتہ ملیشیا کتائب حزب اللہ کی طرف سے جاری کردہ اس بیان کو بھی بظاہر مسترد کر دیا کہ وہ امریکہ کے خلاف فوجی کارروائیاں معطل کر رہی ہے۔
انہوں نے کہا"ہم ہمیشہ اسے سنتے ہیں کہ لوگ کیا کہہ رہے ہیں، لیکن ہم یہ دیکھتے ہیں کہ وہ کیا کرتے ہیں،" انہوں نے کہا۔ " سب کچھ عمل میں ہی ہے۔"
آسٹن نے یہ خیال بھی ظاہر کیا کہ اردن میں مہلک حملے کے بعد، اس طرح کی gestures (اشارے) بہت کم اور بہت تاخیر سے سامنے ائے ہیں۔
انہوں نے کہا، "ہم ان لوگوں کو جوابدہ ٹھہرانا چاہتے ہیں جو اس کے ذمہ دار ہیں۔" "اور ہم اس بات کو بھی یقینی بنائیں گے کہ ہم پیش رفت کے ساتھ ساتھ انہیں ان صلاحیتوں سے محروم کرتے رہیں۔"
جیف سیلڈن، وائس آف امریکہ
فورم