پاکستان میں جمعرات کو ہونے والے انتخابات کے لیے سیاسی جماعتوں کی انتخابی مہم جاری ہے۔ ایسے میں مستقبل کے وزیرِ اعظم کے اُمیدوار بھی سامنے آ رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) کے مطابق نواز شریف جب کہ پیپلزپارٹی کے مطابق بلاول بھٹو زرداری وزارتِ عظمیٰ کے اُمیدوار ہوں گے۔
اگر بات کی جائے مسلم لیگ (ن) کی تو پارٹی قائد نواز شریف اور شہباز شریف دونوں ہی وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز رہ چکے ہیں۔ ایسے میں یہ سوال اُٹھایا جا رہا ہے کہ اگر مسلم لیگ (ن) کامیاب ہوئی تو وزارتِ عظمی کا اُمیدوار کون ہو گا۔
مبصرین سمجھتے ہیں کہ انتخابات کے بعد ملک کی سیاسی صورتِ حال کیا ہو گی، اِس بارے میں ابھی کچھ بھی واضح طور پر نہیں کہا جا سکتا۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ مقتدر حلقوں کو نواز شریف بطور وزیرِ اعظم سوٹ نہیں کرتے۔
تجزیہ کار اور کالم نویس سلمان غنی سمجھتے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) میں فیصلوں کا اختیار نواز شریف کے پاس ہے۔ لہذٰا یہ فیصلہ نواز شریف کو خود کرنا ہے کہ وہ چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بننا چاہتے ہیں یا نہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ملک میں جو سیاسی صورتِ حال چل رہی ہے اُس سے نہیں لگتا کہ کوئی سیاسی جماعت سادہ اکثریت لے پائے گی۔
اُن کا کہنا تھا کہ اگر مسلم لیگ (ن) کو سادہ اکثریت نہ ملی تو شاید نواز شریف وزیرِ اعظم نہ بنیں، لہذٰا وہ کسی اور کو وزیرِ اعظم نامزد کر سکتے ہیں۔
خیال رہے کہ نواز شریف 1990 سے 1993 اور پھر 1997 سے 1999 تک ملک کے وزیرِ اعظم رہے۔ سن 2013 کے انتخابات میں کامیابی کے بعد نواز شریف تیسری مرتبہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز ہوئے، تاہم 2017 میں نااہلی کے بعد اُنہیں وزارتِ عظمی چھوڑنی پڑی۔
'پارٹی چاہتی ہے کہ نواز شریف وزیرِ اعظم بنیں'
تجزیہ کار احمد ولید کی رائے میں مسلم لیگ (ن) یہ سمجھتی ہے کہ نواز شریف ہی آئندہ کے وزیرِ اعظم ہوں گے اور اس بات کی توثیق شہباز شریف بھی مختلف مواقع پر کر چکے ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان پیپلزپارٹی (پی پی پی) اور مسلم لیگ (ن) کو مل کر حکومت بنانا پڑ سکتی ہے، کیوں کہ بظاہر ایسا لگتا ہے کہ کوئی بھی جماعت واضح اکثریت حاصل نہیں کر پائے گی۔
احمد ولید کا کہنا تھا کہ اگر اسٹیبلشمنٹ نے تمام سیاسی جماعتوں کو ایک ساتھ بٹھایا اور اصرار کیا کہ نواز شریف وزیرِ اعظم ہوں گے تو پھر ایسا ہی ہو گا۔
کالم نویس اور تجزیہ کار افتخار احمد سمجھتے ہیں کہ آٹھ فروری کو ملک میں کیا ہونے جا رہا ہے، اِس بارے میں ابھی سے کچھ نہیں کہا جا سکتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ہو سکتا ہے کہ شہباز شریف قومی اسمبلی کی نشست ہار جائیں اور صوبائی نشست سے جیت جائیں۔
اُن کا کہنا تھا کہ قومی اسمبلی کی 266 نشستوں میں سے جس جماعت کے پاس 134 سیٹیں ہوں گی وہی جماعت حکومت بنا پائے گی اور بظاہر ایسا نہیں لگتا کہ کوئی جماعت اتنی نشستیں حاصل کر پائے گی۔
'قبولیت شہباز شریف کی ہے'
کالم نویس اور تجزیہ کار چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ اکتوبر سے پورے ملک میں یہ مہم شروع کر دی گئی تھی کہ نواز آ گیا اور چھا گیا۔ حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایسے اشارے مل رہے ہیں کہ مسلم لیگ (ن) مقامی انتظامیہ کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر دھاندلی کرنا چاہتی ہے۔
واضح رہے کہ چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بھی وائس آف امریکہ کو دیے گئے انٹرویو میں الزام عائد کیا ہے کہ نواز شریف انتظامیہ کے ساتھ مل کر گڑبڑ کر سکتے ہیں۔ تاہم مسلم لیگ (ن) نے ان الزامات کی تردید کی ہے۔
چوہدری غلام حسین کہتے ہیں کہ "پنڈی سے لے کر اسلام آباد تک شہباز شریف ہی قابلِ قبول ہیں، لہذٰا اگر پی ڈی ایم طرز کی مخلوط حکومت بنی تو نواز شریف کا اس میں رول نظر نہیں آ رہا۔"
تجزیہ کار احمد ولید کی رائے میں نواز شریف کا بطور وزیرِ اعظم ماضی کا ریکارڈ دیکھا جائے تو نواز شریف کسی نہ کسی موقع پر اسٹیبلشمنٹ کو چیلنج کرتے ہیں۔
اُن کے بقول اگر شہباز شریف کو دیکھا جائے تو بطور وزیرِ اعظم اُنہوں نے جس طرح اسٹیبلشمنٹ کی باتوں کو مانا ہے وہ نواز شریف کے برعکس ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ ایک عام تاثر پایا جاتا ہے کہ جب پی ڈی ایم کی حکومت تھی تو تمام فیصلے اسٹیبلشمنٹ کر رہی تھی۔ لیکن شہباز شریف عوامی سطح پر پرفارم نہیں کر پائے۔
واضح رہے کہ نواز شریف بطور وزیرِ اعظم اپنی مدت پوری نہیں کر سکے تھے۔ بعض ماہرین کہتے ہیں کہ اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ تعلقات میں خرابی نواز شریف کی وزارتِ عظمی سے رُخصتی کا باعث بنتی رہی ہے۔
احمد ولید کے بقول ماضی میں عمران خان یہی سمجھتے تھے کہ اسٹیبلشمنٹ اُن کے ساتھ لمبا چلے گی۔ لیکن اُن کی یہ غلط فہمی دور ہوئی۔
احمد ولید کہتے ہیں کہ پی ڈی ایم حکومت بنتے وقت یہ شرائط رکھی گئی تھیں کہ سیاسی مقدمات ختم ہوں گے اور نواز شریف پاکستان واپس آئیں گے۔ تاہم یہ اشارے نہیں ملے کہ اسٹیبلشمنٹ نے نواز شریف کو چوتھی مرتبہ وزیرِ اعظم بنانے کی شرط بھی قبول کر لی ہے یا نہیں۔
سلمان غنی کہتے ہیں کہ نواز شریف چاہیں گے کہ بطور وزیرِ اعظم اُن کے پاس بڑے فیصلے کرنے کا اختیار ہو۔
اُن کا کہنا تھا کہ اِس وقت پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ معاشی مسائل کا حل ہے جس کے لیے پاکستان کی ریاست اور اہلِ سیاست مل کر چلنا چاہتے ہیں۔
فورم