پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین اور جماعت کی وزارتِ عظمیٰ کے امیدوار بلاول بھٹو زرداری کہتے ہیں کہ نواز شریف انتظامیہ پر دباؤ ڈال کر الیکشن میں گڑ بڑ کرنا چاہتے ہیں۔ اب الیکشن کے بعد مسلم لیگ (ن) سے اتحاد بہت مشکل ہو گیا ہے کیوں کہ یہ میثاقِ جمہوریت والی مسلم لیگ (ن) نہیں ہے۔
سندھ میں انتخابی مہم کے دوران وائس آف امریکہ سے گفتگو میں بلاول بھٹو زرداری نے انتخابات کے بعد کی صورتِ حال کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ پیپلز پارٹی مسلم لیگ (ن) کے ساتھ اس وجہ سے اتحاد میں نہیں جا سکتی کیوں کہ یہ میثاقِ جمہوریت اور ووٹ کو عزت دو والی مسلم لیگ (ن) نہیں ہے بلکہ اسلامی جمہوری اتحاد اور امیر المومنین بننے کے خواب دیکھنے والی مسلم لیگ (ن) ہے۔
اپریل 2022 میں تحریکِ انصاف کی حکومت کے خاتمے کے بعد مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی اتحادی حکومت کی دو بڑی جماعتیں تھیں جو کہ اب انتخابی ماحول میں ایک دوسرے کو ہدفِ تنقید بنائے ہوئے ہیں۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ نواز شریف اگر وزیرِ اعظم بنتے ہیں تو دیکھنا ہوگا کہ کس سوچ کو لے کر چلتے ہیں کیوں کہ جس طرح آج کل ان کی جماعت نفرت و تقسیم کی سیاست کر رہی ہے۔ اس سے ملک و قوم کا نقصان ہوگا۔ فائدہ کسی کا نہیں ہو گا۔
وہ کہتے ہیں کہ پاکستان کی 70 فی صد آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور وہ نہیں چاہتے کہ آزمائے ہوئے چہروں کو دوبارہ آزمائیں۔ لہذا اب موقع آ گیا ہے کہ اس ملک کی دیکھ بھال ایک نئی نسل کو منتقل کی جائے تاکہ موجودہ ملکی مشکلات کا بہتر انداز سے مقابلہ کیا جا سکے۔
انہوں نے کہا کہ دوسری بار وزارتِ عظمیٰ کے بعد جب نواز شریف تیسری بار وزیرِ اعظم بنے تو ان کا مزاج کچھ جمہوری تھا جو کہ اب تبدیل ہو چکا ہے۔
ان کے بقول جو میاں نواز شریف ہمارے سامنے نظر آ رہے ہیں وہ بلکل ہی ایک مختلف شخصیت ہے۔
’نواز شریف الیکشن میں گڑبڑ کرنا چاہتے ہیں‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین نے کہا کہ موجودہ نگراں حکومت اور انتظامیہ نواز شریف کے حق میں جانب دار ہے اور یہ اس وجہ سے بھی ہے کہ نگراں وزیرِ اعظم کا تقرر شہباز شریف نے راجہ ریاض کے ساتھ مل کر کیا جو کہ اب مسلم لیگ (ن) کے ٹکٹ پر الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔
ان کے بقول ایسی خبریں ملی ہیں کہ میاں نواز شریف انتظامیہ پر دباؤ ڈال رہے ہیں (الیکشن میں) گڑبڑ کرنے کے لیے۔ تو میں خبردار کر رہا ہوں کہ ایسا کچھ نہیں ہونا چاہیے۔
بلاول نے کہا کہ وہ ملک میں سیاسی افہام و تفہیم چاہتے ہیں تاکہ پاکستان کو آگے لے کہ جایا جاسکے اور سیاسی محاذ آرائی کی مسائل میں نہ الجھیں۔
پیپلز پارٹی چیئرمین نے امید ظاہر کی کہ نواز شریف کے دباؤ کے باوجود نگراں حکومت اور انتظامیہ الیکشن کے عمل میں کسی ایک جماعت کے حق میں مداخلت نہیں کریں گے۔
انہوں نے کہا کہ میر پور خاص میں ان کے جلسے کے اگلے روز ہی شہر میں پیپلز پارٹی کے سرکردہ حامی فرد کو وفاقی تحقیقاتی ادارے نے گرفتار کیا اور ان کی ضمانت کی درخواست بھی الیکشن کے بعد سننے کے لیے مقرر کی گئی ہے۔
بلاول بھٹو کا کہنا تھا کہ کہ پیپلز پارٹی نے ماضی میں اس سے کئی زیادہ انتقامی ماحول اور مشکل حالات کا سامنا کیا ہے۔ لیکن امید کرتے ہیں کہ مسلم لیگ ن کی سیاسی تقسیم کو ہوا دینے کی کوشش ناکام رہے گی۔
’الیکشن کی شفافیت پر زیادہ سوال نہہں اٹھنا چاہئے‘
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کا کہنا تھا کہ الیکشن پر پہلے سے تنقید ہو رہی ہے اور وہ چاہتے ہیں نہ انتخابی عمل پر اس سے زیادہ تنقید نہ ہو اور جتنا ممکن ہو صاف و شفاف الیکشن کرائے جائیں۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی جماعتوں کو یکساں ماحول اور مواقع ملنے چاہیئں۔
ان کے بقول جتنا ممکن ہو لیول پلیئنگ فیلڈ دلوائیں تاکہ الیکشن کی ساکھ، وہ مینڈیٹ اور وہ اسپیس موجود ہو جہاں پیپلز پارٹی وزراتِ عظمیٰ سنبھالے یا میاں نواز شریف وزارتِ عظمیٰ سنبھالیں تو ہمارا ملک مثبت سمت میں چلے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پیپلز پارٹی سیاسی جماعتوں سے اتحاد کے بغیر اپنے بل بوتے اور منشور پر الیکشن میں اس امید سے حصہ لے رہی ہے کہ کامیاب ہو کر حکومت بنائیں گے۔
’اسٹیبلشمنٹ کا کردار محدود کرنے کے لیے سیاست دانوں کو کام کرنا ہو گا‘
سیاست میں اسٹیبلشمنٹ کے کردار پر بات کرتے ہوئے بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ پاکستان میں جمہوری ارتقا کے لیے مزید کام کرنے کی ضرورت ہے اور اس ضمن میں جو اقدامات کیے گئے ہیں ان میں پہل سیاست دانوں کو کرنی ہو گی۔
اپنی بات کی وضاحت میں ان کا کہنا تھا کہ ایک تو یہ کہ سیاست دانوں کو ایک دوسرے کی عزت کرنی ہوگی کیوں کہ اگر ہم ایک دوسرے کی عزت نہیں کریں گے تو یہ امید نہ رکھیں کہ کوئی دوسرا ہماری عزت کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ سیاسی رہنماؤں کو اپنی سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست کرنی چاہیے کیوں کہ اگر ہم سیاست کے دائرے میں رہ کر سیاست نہیں کریں گے تو دوسرے سے بھی توقع نہ رکھیں کہ وہ اپنے دائرے میں رہ کر کام کریں گے۔
بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ جو نو مئی کا واقعہ تھا وہ بلکل سیاست کے دائرے میں تو نہیں۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان جیسے ملک جہاں جمہوریت کمزور ہے وہاں سیاست دانوں کو کچھ قواعد و اصول طے کرنا ہوں گے جس سے ہم سیاست کو سیاست ہی رکھیں اور اسے ذاتی دشمنی میں تبدیل نہ ہونے دیں۔