بھارت کی ریاست اترپردیش کے شہر وارانسی کی گیان واپی مسجد اور دہلی کی سنہری مسجد کے تنازعات کے درمیان دہلی میں مشہور قطب مینار سے محض 400 میٹر کی دوری پر واقع ایک تاریخی مسجد کو منہدم کر دیے جانے سے ایک نیا تنازع پیدا ہو گیا ہے۔
دہلی میں اراضی اور تعمیرات کے انتظامات کے ذمہ دار ادارے ’دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ (ڈی ڈی اے) کے عملے نے 30 جنوری کو علیٰ الصبح ’مسجد آخوندجی‘ اور اس سے ملحق مدرسہ بحرالعلوم کو بلڈوزر سے منہدم کر کے ملبے کو وہاں سے کہیں اور منتقل کر دیا۔
مسجد کمیٹی کی جانب سے انہدام کے خلاف دہلی ہائی کورٹ میں اپیل داخل کی گئی جس پر عدالت نے ڈی ڈی اے سے انہدام کی وجوہات پر روشنی ڈالنے اور متعلقہ دستاویزات جمع کرنے کی ہدایت دی ہے۔ اس نے یہ بھی پوچھا ہے کہ کیا پیشگی نوٹس جاری کیا گیا تھا۔ اس معاملے پر 12 فروری کو سماعت ہو گی۔
اس مسجد کی تاریخی حیثیت کے بارے میں حکومت کے دو محکموں ’آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا‘ (اے ایس آئی) اور ’دہلی ڈویلپمنٹ اتھارٹی‘ (ڈی ڈی اے) کے الگ الگ دعوؤں کی وجہ سے یہ تنازع مزید گہرا ہو گیا ہے۔
محکمہ آثار قدیمہ کے ایک اعلیٰ عہدے دار کی 1922 میں شائع رپورٹ میں مسجد کی موجودگی کا ذکر کیا گیا ہے۔ رپورٹ میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس مسجد کی مرمت 1854-1853 میں کی گئی تھی۔
دوسری طرف ڈی ڈی اے نے اسے غیر قانونی قرار دے کر منہدم کیا ہے۔ اس کے مطابق مسجد ’آخوندجی‘ ’سنجے ون‘ یعنی سنجے فارسٹ ایریا میں تھی اور غیر قانونی تعمیرات و تجاوزات کو ہٹانے کی مہم کے تحت اسے منہدم کیا گیا۔
بعض ماہرین اور کارکنوں کا دعویٰ ہے کہ یہ مسجد 13 ویں صدی میں تعمیر کی گئی تھی۔ تاریخ دانوں کے مطابق سنجے ون کو 1994 میں فارسٹ ایریا قرار دیا گیا۔ لہٰذا یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد اس کی زمین پر ناجائز قبضہ کر کے تعمیر کی گئی تھی۔
تاریخ دانوں کے مطابق 1922 میں شائع ہونے والی مولوی ظفر حسن،اسسٹنٹ سپرنٹنڈنٹ، آرکیالوجیکل سروے آف انڈیا کی ’لسٹ آف محمڈن اینڈ ہندو مانومنٹس‘ جلد تین میں آخوندجی مسجد کے وجو کو تسلیم کیا گیا ہے۔
اس رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مسجد آخوندجی عید گاہ سے تقریباً 100 میٹر کے مغرب میں ہے اور وہ 1398 میں ہندوستان پر تیمور کے حملے کے وقت موجود تھی۔ اس کی تعمیر کا سال نامعلوم ہے لیکن 1853 میں اس کی مرمت کی گئی تھی۔
معروف تاریخ داں رعنا صفوی نے بھی ایک پوسٹ میں یہی بات لکھی ہے۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ سرخ پتھر کے کتبے پر اس کی مرمت کا سال 1853 لکھا ہوا تھا جسے توڑ دیا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ مولوی ظفر حسن کی کتاب ’مانومنٹس آف انڈیا‘ میں مسجد کے پاس نصب کتبے کا ذکر ہے اور کہا گیا ہے کہ یہ ظفر کا لکھا ہوا ہے۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ بہادر شاہ ظفر کا لکھا ہوا تھا، کیوں کہ ظفر تخلص انہی کا تھا۔
ان کے مطابق باہر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس کی تصویر دو سال قبل ’ہیریٹیج مہرولی‘ نامی ہینڈل سے انسٹا گرام پر پوسٹ کی گئی تھی۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بورڈ پر درگاہ شیخ جلال الدین تبریزی لکھا ہوا تھا۔ شیخ تبریزی التمش کے زمانے میں 1210 میں دہلی آئے تھے۔ بعدمیں وہ بنگال چلے گئے جہاں انھوں نے صوفی ازم پر کافی کام کیا تھا۔ لیکن وہاں ان کی درگاہ نہیں بلکہ خانقاہیں ہیں۔ ان کی درگاہ دہلی میں مذکورہ مقام پر تھی۔
انھوں نے مزید کہا کہ اس مسجد اور درگاہ کا اگر کوئی تعلق شیخ جلال الدین تبریزی سے تھا تو ان کی تعمیر 13ویں یا 14 ویں صدی میں ہوئی تھی۔
مزید براں یہ کہ اس مسجد اور درگاہ کا طرز تعمیر لودھی دور حکومت کا ہے۔ اس میں کافی مرمت ہوئی تھی۔ لیکن یہ یقینی طور پر کہا جا سکتا ہے کہ یہ مسجد سات آٹھ سو سال پرانی تھی۔
انھوں نے کہا کہ دہلی میں بہت سی عمارتیں دہلی وقف بورڈ میں لسٹڈ ہیں۔ ایسی عمارتوں کو ڈی ڈی اے کیسے منہدم کر سکتی ہے۔ ان کے مطابق مسجد آخوندجی کا کتبہ اگر بہادر شاہ ظفر نے لکھا ہے اور درگاہ کا تعلق شیخ جلال الدین تبریزی سے ہے تو اس کی بہت زیادہ تاریخی اہمیت ہے۔
دہلی کے ایک اخبار ’انڈین ایکسپریس‘ کے مطابق ڈی ڈی اے کی اپنی دستاویز میں کہا گیا ہے کہ سنجے ون دہلی کے مہرولی، جنوبی وسطی رِیج کا حصہ ہے۔ اس کے تحفظ اور گرین لینڈ کی حیثیت سے ترقی دینے کے لیے ڈی ڈی اے نے 70 کی دہائی میں 784 ایکڑ کے اس علاقے کو مختص کیا جسے اب سنجے ون کہا جاتا ہے۔ اسے فارسٹ ایریا کی حیثیت سے 1994 میں نوٹی فائی کیا گیا۔
ایک اور تاریخ داں سہیل ہاشمی کے مطابق مسجد میں باضابطہ نمازیں ادا ہوتی رہی ہیں۔ یہ مسجد سنجے ون کو فارسٹ لینڈ قرار دینے کے پہلے سے تھی۔ اس طرح یہ عمارت تجاوزات کے زمرے میں نہیں آتی۔
مقامی باشندوں کے مطابق یہ مسجد رضیہ سلطان کے دور میں تعمیر کی گئی تھی۔ یاد رہے کہ رضیہ سلطان نے 1236 سے 1240 عیسوی تک دہلی پر حکومت کی تھی۔
مسجد کے امام ذاکر حسین کے مطابق جو کہ دہلی وقف بورڈ کے رکن بھی ہیں، فجر کے وقت ڈی ڈی اے کا عملہ پولیس دستے کے ساتھ پہنچا۔ اس نے ہم لوگوں کو اپنا سامان ہٹانے کے لیے مشکل سے دس منٹ دیے۔
انھوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ ڈی ڈی اے کے عملہ نے ان کا فون لے لیا تاکہ انہدامی کارروائی کو ریکارڈ نہ کیا جا سکے۔ انھیں وہاں سے ہٹا کر پورے علاقے کا محاصرہ کر لیا گیا۔ وہاں سیکیورٹی جوانوں کو تعینات کر دیا گیا اور ملبہ دوسری جگہ منتقل کر دیا گیا۔
ان کے مطابق مدرسے میں تقریباً دو درجن بچے رہتے تھے۔ ان کا سارا سامان تباہ ہو گیا۔
ادھر ڈی ڈی اے نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سنجے ون ایک ریزروڈ فارسٹ ایریا ہے۔ ’رِیج مینجمنٹ بورڈ‘ کے فیصلے کے مطابق اس پورے علاقے کو تجاوزات سے پاک کیا جانا ہے۔
بیان کے مطابق مذہبی نوعیت کی عمارت کے انہدام کی منظوری متعلقہ محکمے کی مذہبی کمیٹی نے دی تھی۔
اخبار انڈین ایکسپریس کے مطابق جب ڈی ڈی اے کے ذمہ داروں سے سے پوچھا گیا کہ مسجد کمیٹی کے مطابق اسے کوئی نوٹس نہیں دیا گیا تھا تو پھر اسے کیسے منہدم کیا گیا، تو انھوں نے کہا کہ ہم نے ضابطے پر عمل کرکے یہ کارروائی کی ہے۔
قبل ازیں ڈی ڈی اے نے دہلی ہائی کورٹ میں ایک درخواست داخل کرکے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مہرولی آرکیالوجیکل پارک میں کسی مسجد، قبرستان یا وقف بورڈ کی املاک کو منہدم نہیں کرے گی۔
ڈی ڈی اے کی اس کارروائی پر بڑے پیمانے پر تنقید کی جا رہی ہے۔ سوشل میڈیا صارفین نے اسے غیر قانونی کارروائی قرار دیا ہے اور اس کا موازنہ مسلمانوں کی دیگر املاک کے انہدام سے کیا ہے۔
مسلمانو ں اور ہندوؤں کی جانب سے سوشل میڈیا پر اس کارروائی پر اپنی ناراضی کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ انھوں نے آخوندجی مسجد کی تاریخی اہمیت اور اس سے جذباتی وابستگی کا بھی ذکر کیا ہے۔
فورم