امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن پیر کے روز سعودی عرب کے دورے پر پہنچے ہیں۔ یہ ان کے مشرق وسطیٰ کے دورے کی پہلی منزل ہے جب کہ واشنگٹن، سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر لانے کے مذاکرات اور جنگ کے بعد غزہ میں کس کی حکومت ہو گی اس حوالے سے بات چیت میں پیش رفت کے لیے کوشاں ہے۔
ایک امریکی عہدیدار نے بتایا کہ بلنکن نے ریاض میں ولی عہد محمد بن سلمان سے جو مملکت کے عملأ حکمران ہیں اور اپنے سعودی ہم منصب پرنس فیصل بن فرحان الفیصل سے ملاقات کی۔
امریکہ کے اعلیٰ ترین سفارت کار کا سات اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے مہلک حملے کے بعد خطے کا یہ پانچواں دورہ ایسے وقت ہو رہا ہے جب امریکہ، گزشتہ ہفتے اردن میں اس ڈرون حملے کے جواب میں، شام، عراق اور یمن میں ایرانی حمایت یافتہ ملیشیاؤں پر جوابی حملے کر رہا ہے۔
اردن پر ڈرون حملے میں تین امریکی فوجی مارے گئے تھے اور درجنوں دوسرے زخمی ہوئے تھے
امریکی وزیر خارجہ سعودی عرب کے بعد، مصر، قطر اور اسرائیل کا دورہ بھی کریں گے، اور یرغمالوں سے متعلق سمجھوتے کے لیے مصر اور قطر کی ثالثی میں حماس سے ہونے والی بات چیت کو آگے بڑھانے کی کوشش کریں گے۔
تاہم بلنکن اس پیغام پر پھر سے زور دینے کی کوشش کریں گے کہ بائیڈن حکومت نہ تو ایران کے ساتھ جنگ چاہتی ہے اور نہ ہی یہ چاہتی ہے کہ تصادم مزید وسعت اختیار کرے۔
ریاض جاتے ہوئے راستے میں رپورٹروں کو بریفنگ دینے والے ایک سینئیر امریکی عہدیدار نے کہا کہ وزیر خارجہ کے لیے ایک اہم ترجیح، خطے کے ممالک کو براہ راست یہ پیغام پہنچانا ہے کہ امریکہ اس جنگ کو پھیلتے ہوئے نہیں دیکھنا چاہتا اور نہ خود اس جنگ کو پھیلائے گا۔
ادھر ایران بھی اب تک اس تصادم میں کسی براہ راست کردار سے گریز کرتا رہا ہے۔ تاہم وہ ان ملیشیا گروہوں کی مدد اور حمایت کرتا ہے جو متعدد حملوں میں ملوث ہیں۔
کانگریس میں ریپبلیکنز کی نکتہ چینی کے باوجود، جن میں سے بعض نے ایران کے اندر حملے کرنے کی وکالت کی ہے، بائیڈن حکومت کھل کر کہہ چکی ہے کہ وہ ایران کے ساتھ جنگ نہیں چاہتی۔
پنٹاگان کا بھی کہنا ہے کہ وہ نہیں سمجھتا کہ خود تہران بھی جنگ چاہتا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جیک سلیوان نے بھی اتوار کے روز ایک ٹیلی وژن شو میں کہا کہ امریکہ وسیع جنگ نہیں دیکھنا چاہتا لیکن اگر اس پر حملہ ہوا تو جواب ضرور دے گا۔
130 سے زیادہ یرغمال اب بھی غزہ میں موجود ہیں۔ اور جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفے کے تبادلے میں حماس کی جانب سے ان کی ممکنہ رہائی ان مسائل میں شامل ہے جن کے لیے مصر اور قطر امریکہ کی حمایت سے ثالثی کر رہے ہیں۔
وہائٹ ہاؤس کے عہدیداروں نے کچھ پیش رفت کی جانب توجہ دلائی لیکن کہا ہے کہ کچھ اختلافات ابھی باقی ہیں۔
یرغمالوں کے بارے میں سمجھوتے اور جنگ میں انسانی بنیادوں پر وقفے کو اب اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کی بات چیت میں کسی پیش رفت میں مدد دینے کے حوالے سے اہم سمجھا جا رہا ہے۔ یہ بات چیت سات اکتوبر کے حملے کے بعد منجمد ہو گئی تھی۔ لیکن حالیہ ہفتوں میں اس کا دوبارہ آغاز ہوا ہے۔
اس خبر کے لیے مواد رائٹرز سے لیا گیا ہے۔
فورم