اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو نے بدھ کو حماس کی جانب سے جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے معاہدے کی شرائط کو مسترد کرتے ہوئے انہیں "فریب" تعبیر کیا۔
نیتن یاہو نے حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ میں، جو اب پانچویں مہینے میں ہے، "مکمل فتح" حاصل کرنے تک آگے بڑھنے کا عزم ظاہرکیا۔
یتن یاہو نے قومی ٹیلی ویژن پر ایک ملک گیر نیوز کانفرنس میں کہا، "حماس کے فریبپر مبنی جو مطالبات جو ہم نے ابھی سنے ہیں ان کے سامنے ہتھیار ڈالنے سے ، "نہ صرف قیدیوں کی رہائی عمل میں نہیں آئے گی، بلکہ یہ ایک اور قتل عام کو دعوت دیں گے ۔"
حماس کا ردعمل
حماس کے سینئر عہدیدار سمیع ابو زہری نے رائٹرز کو بتایا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنیامن نیتن یاہو کی طرف سے غزہ میں جنگ بندی کے لیے حماس کی تازہ پیشکش کو مسترد کرنے کےبیان سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ مشرق وسطیٰ میں تنازعات کو وسعت دینے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
ابو زہری نے کہا، ’’نیتن یاہو کے بیان سیاسی اکڑ دکھانے کی ایک شکل ہیں، جو خطے میں تنازع کو آگے بڑھانے کے ان کے ارادے کی نشاندہی کرتے ہیں۔تاہم بقول ان کے‘‘ تحریک (حماس) تمام آپشنز سے نمٹنے کے لیے تیار ہے۔
نیتن یاہو نے یہ بیان دورے پر آئے ہوئے امریکہ کے وزیر خارجہ انٹنی بلنکن سے ملاقات کے فوراً بعد دیا ہے، جو جنگ بندی کے کسی معاہدے کے حصول کی امید میں خطے کا دورہ کر رہے ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نےکہا تھاکہ جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے نئے معاہدے کے لیے اسرائیل اور حماس کے درمیان موجود خلیج کو ختم کرنے کے لیے "بہت کام" باقی ہے۔
صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا تھاکہ حماس کے مطالبات "بہت زیادہ ہیں" ہیں، تاہم یہ کہ مذاکرات جاری رہیں گے۔
اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو نے وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کی ہے، اور دونوں نے یرغمالوں کو آزاد کرانے کی تازہ ترین کوششوں پر تبادلہ خیال کیا۔
حماس کا پیش کردہ مجوزہ منصوبہ
نئے معاہدے میں حماس نے جنگ بندی اور یرغمال افراد کی رہائی کے لئے جو شرائط پیش کی ہیں، وہ جنگ کے بارے میں اسرائیلی اہداف سے مطابقت میں نہیں ہیں۔
عسکریت پسند تنظیم حماس نے امریکہ، اسرائیل، قطر اور مصر کی طرف سے پیش کی گئی تجویز کے جواب میں، ساڑھے چار ماہ پر محیط، تین مرحلوں پر مشتمل ایک منصوبہ پیش کیا ہے۔
اس منصوبے میں کہا گیا ہے کہ تمام یرغمالوں کو اسرائیل کی طرف سے قید کیے گئے ان سینکڑوں فلسطینیوں کے بدلے رہا کیا جائے گا، جن میں سینئر عسکریت پسند بھی شامل ہیں، اور تجویز میں جنگ کا خاتمہ شامل ہے۔
حماس کی حکمرانی اور فوجی صلاحیتوں کو تباہ کرنا اسرائیل کے بیان کردہ جنگی مقاصد میں سے ایک ہے، اور حماس کی تجویز سے گروپ غزہ میں مؤثر طریقے سے اقتدار میں رہ جائے گا اور اسے اپنی فوجی صلاحیتوں کو دوبارہ تشکیل کی اجازت مل جائے گی۔
منگل کو سامنے آنے والی پیش ر فت
اس سے قبل قطر کے وزیر اعظم شیخ محمد بن عبدالرحمن الثانی نے منگل کو دورے پر آئے ہوئے امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن کے ساتھ ایک نیوز کانفرنس میں بتایا کہ غزہ میں جنگ بندی سے متعلق تازہ ترین منصوبے پر حماس کا ردعمل عمومی طور پر مثبت ہے۔
قطر امریکہ اور مصر کے ساتھ مل کر جنگ بندی کے لیے کام کر رہا ہے جس میں لڑائی میں لمبا وقفہ اور حماس کے پاس موجود یرغمالوں کی رہائی شامل ہو گی۔
قطری وزیر اعظم نے مزید تفصیلات نہیں بتائیں، لیکن اس منصوبے پر مثبت توقعات کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ یہ تفصیلات اسرائیل تک پہنچائی جا رہی ہیں۔
امریکی وزیر خارجہ بلنکن نے تصدیق کی کہ حکام کو حماس کا جواب موصول ہو گیا ہے اور کہا کہ وہ بدھ کو اسرائیل کے دورے میں وہاں کے رہنماؤں کو اس بارے میں بتائیں گے۔
حماس نے ایک بیان میں کہا کہ اس نے امریکہ اور مشرق وسطیٰ کے ثالثوں کی تازہ ترین تجویز کا مثبت جذبے کے ساتھ جواب دیا ہے۔ لیکن اس نے یہ بھی کہا ہے کہ وہ فلسطینیوں کے خلاف جارحیت کے خاتمے کے لیے ایک جامع اور مکمل جنگ بندی کا خواہاں ہے۔
اسرائیل، عسکریت پسند گروپ کی جانب سے مستقل جنگ بندی کی خواہش کو پہلے ہی مسترد کر چکا ہے۔
بلنکن اپنے اس دورے میں مصری حکام سے ملاقات کر چکے ہیں اور پیر کے روز انہوں نے سعودی عرب میں حکام سے مزاکرات کیے تھے۔
وہ ایک ایسے موقع پر خطے کا دورہ کر رہے ہیں جب اسرائیل حماس کے درمیان جاری جنگ غزہ سے ملحق مصر کی سرحد تک پھیلنے کے خدشات بڑھ رہے ہیں۔ مصر کی سرحد کے ساتھ ساتھ 23 لاکھ آبادی کے شہر غزہ سے بے گھر ہونے والے فلسطینیوں کی تقریباً نصف تعداد پناہ لیے ہوئے ہے۔
اسرائیل کے وزیر دفاع نے کہا ہے کہ ان کی افواج کی پیش قدمی مصر کی سرحد پر واقع قصبے رفح کی طرف جاری ہے۔
مصر کا انتباہ
مصر نے خبردار کیا ہے کہ اس کی سرحد پر اسرائیلی فوج کی تعیناتی سے دونوں ممالک کے درمیان چار عشرے قبل طے پانے والا امن معاہدہ خطرے میں پڑ جائے گا۔
مصر کو یہ خدشہ ہے کہ رفح کے علاقے میں لڑائی پھیلنے سے فلسطینی اپنی جان بچانے کے لیے سرحد پار کر کے اس کے علاقے میں داخل ہو سکتے ہیں۔ مصر کہہ چکا ہے کہ وہ فلسطینی پناہ گزینوں کو اپنے ملک میں داخل نہیں ہونے دے گا۔
قاہرہ میں مصری صدر عبدالفتاح السیسی نے وزیر خارجہ بلنکن سے ملاقات کے دوران یہ زور دیا کہ فلسطینیوں کو غزہ سے نکلنے پر مجبور نہیں کیا جانا چاہیے۔
مصر اور قطر، اسرائیل اور حماس کے درمیان ایک معاہدے طے کرانے کے لیے ثالثی کر رہے ہیں جس کے نتیجے میں جنگ میں کئی ہفتوں کے وقفے کے بدلے حماس مزید یرغمالوں کو رہا کرے گا۔
جنگ بندی اور جنگ کا دائرہ محدود رکھنے اور نقصانات کو کم سے کم تر سطح پر لانے کی کوششوں کے سلسلے میں یہ امریکی وزیرخارجہ بلنکن کا مشرق وسطیٰ کا پانچواں دورہ ہے۔
ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کے شام، یمن اور بحیرہ احمر میں حملوں نے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنا دیا ہے، جو آبی گزرگاہوں پر سفر کرنے والے تجارتی جہازوں کے ساتھ ساتھ خطے میں موجود امریکی مفادات پر بھی حملے کر رہے ہیں۔
حال ہی میں امریکی فورسز نے ایران کی حمایت یافتہ ملیشیاؤں کو حملوں سے باز رکھنے کے لیے یمن، شام اور مصر میں ان کے گولہ باردو کے ٹھکانوں اور حملوں کے لیے استعمال ہونے والی تنصیبات پر درجنوں حملے کیے ہیں۔
فلسطین کی وزارت صحت کے تازہ اعداد و شمار میں بتایا گیا ہے اسرائیل حماس جنگ میں ہلاک ہونے والوں کی تعداد 27 ہزار 500 سے بڑھ گئی ہے جن میں اکثریت بچوں اور عورتوں کی ہے، جب کہ مزید ہزاروں افراد زخمی ہیں۔
خطے کی یہ مہلک ترین اور تباہ کن جنگ 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے جنگجوؤں کے اچانک حملے کے بعد شروع ہوئی تھی جس میں اسرائیل کا کہنا ہے کہ اس کے 1200 کے لگ بھگ افراد ہلاک اور تقریباً 250 کو یرغمال بنا لیا گیا تھا۔
(اس رپورٹ کے لیے کچھ معلومات ایسوسی ایٹڈ پریس سے لی گئیں ہیں)
فورم