بحیرہ احمر میں جہاز رانی پر حوثیوں کے ڈرون اور میزائل حملوں کے نتیجے میں ایک متبادل زمینی راستے کے استعمال کی حوصلہ افزائی کی جا رہی ہے جس کے ذریعے سامان کو ٹرکوں پر لاد کر خلیج فارس سے سعودی عرب ا ور اس سے آگے اردن اسرائیل اور مصر تک پہنچایا جا نا ہے ۔
اس منصوبے کو جس کے ذریعے روزانہ درجنوں ٹرک اسرائیلی بندرگاہ حیفہ تک پہنچ رہے ہیں، سال دو ہزار بیس کے ابراہام ایکارڈ کے ابتدائی فائدے کے طور پر دیکھا جا رہا ہے،جن کے ذریعے متحدہ عرب امارات اور اسرائیل کے درمیان تعلقات معمول پر آئے تھے۔
اسے اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان مستقبل میں تعاون کے لئے مثبت اشارہ سمجھا جا رہاہے۔
امریکہ ایک فلسطینی ریاست کے قیام کے بدلے میں ایک سمجھوتہ کروانے کے لئے کوشاں ہے جس کے تحت ان دونوں ملکوں کے درمیان تعلقات معمول پر آجائیں۔
سعودی عرب نے اس بارے میں ابھی کوئی تبصرہ نہیں کیا ہے جس کے تحت اس صحرائی مملکت کے راستے وہ سامان روانہ کیا جا سکے گا۔
یہ زمینی پل خطے میں پہلے ہی متنازعہ ہے۔ اور گزشتہ ہفتے ہی اردن میں اس پر مظاہرے ہوئے جن میں وہ مظاہرین بھی تھے جو غزہ میں حماس کے خلاف جنگ میں اسرائیل کے طرز عمل پر برہم تھے۔
سینکڑوں لوگوں نے عمان اور دوسرے شہروں میں مارچ کیا اور دوسرے مطالبات کے علاوہ ان کا یہ مطالبہ بھی تھا کہ حکومت کسی ایسے ٹرک کو گزرنے کی اجازت نہ دے جو خلیجی ریاستوں سے روانہ ہوا ہو اور جس کی منزل اسرائیل ہو۔
ایک زمینی راستہ قائم کرنے کی کوششیں کم از کم دو ہزار تئیس کے وسط سے ہو رہی ہیں، لیکن ان میں تیزی اس وقت سے آئی جب ایرانی حمایت یافتہ حوثیوں نے بحیرہ احمر سے گزرنے والے جہازوں پر میزائیل اور ڈرون حملے شروع کئے۔
انتظامات کے تحت مشرق بعید سے ساماں لانے والے جہاز دوبئی یا بحرین میں اپنا سامان اردن کے ٹرکوں پر لاد سکتے ہیں یہ سامان سعودی عرب اور اردن سے گزر کر اسرائیلی ٹرکوں پر لادا جائے گا۔ اور اردنی سرحد سے اسرائیل کی بحیرہ روم کی بندرگاہ حیفہ کے لئے روانہ کر دیا جائے گا۔ اور جو سامان مصر جانے والا ہے وہ سڑک کے راستے یا جہازوں کے ذریعے آگے مصر کے لئے روانہ کیا جا سکتا ہے۔
لندن میں قائم انفرا اسٹرکچر ڈیولپمنٹ کنسلٹینسی انفراٹا کی میری ٹائم ایڈوائیزری کے سربراہ ڈین ڈیویسن کہتے ہیں کہ نئی تجارتی راہداری کی کامیابی کے لئے متعلقہ حکومتوں کی مناسب اور مضبوط حمایت کی ضرورت ہو گی۔
فورم