|
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی کوششیں جمعرات کو اس وقت نئی رفتار پکڑتی دکھائی دیں جب وائٹ ہاؤس نے کہا کہ اسرائیلی رہنماؤں کے ساتھ ایک سینئر امریکی ایلچی کا دورہ "اچھا جا رہا ہے۔" دیگر ثالثوں نے بھی متحارب فریقوں کی جانب سے حوصلہ افزاعلامتوں کی اطلاع دی ہے۔
پیش رفت کے نئے آثار اس ہفتے کے آخر میں پیرس میں متوقع اس سربراہی اجلاس سے پہلے سامنے آئےہیں جہاں ثالث ایک نئی تجویز پیش کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں۔
امریکہ، مصر اور قطر ہفتوں سے ایک ایسا فارمولہ تلاش کرنےکی تگ ودو میں ہیں جس سے غزہ میں اسرائیل کی تباہ کن کارروائیوں کو روکا جا سکے اور اب جب مسلمانوں کامقدس مہینہ رمضان قریب آرہا ہے،اس کے لیے ایک بے ضابطہ ڈیڈ لائن کا سامنا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے مشرق وسطیٰ کے ایلچی بریٹ میک گرک نے اسرائیلی رہنماؤں اور حماس کے زیر حراست اسرائیلی یرغمالوں کے اہل خانہ سے دن بھر بات چیت کی۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی نے کہا کہ "بریٹ سے ہمیں ایسے ابتدائی اشارےمل رہے ہیں کہ یہ بات چیت بخوبی ہو رہی ہے۔"
ان کوششوں میں شامل ایک مغربی سفارت کار نے کہا کہ دونوں فریق وفقہ چاہتے ہیں۔ انہوں نے کہا،"ہم نے اپنے شراکت داروں سے جو کچھ سنا ہے وہ یہ ہے کہ وہ مراعات دینے کے لیے تیار ہیں،" انہوں نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بند دروازے کی سفارت کاری پر بات کرتے ہوئے کہا۔ "ان پر وقت دباؤ ڈال رہا ہے۔"
فلسطینی محکمہ صحت کے حکام نے بتایا کہ نئی لڑائی میں، جنوبی اور وسطی غزہ میں اسرائیلی حملوں میں 70 سے زائد افراد ہلاک ہوئے۔
مغربی کنارے میں کشیدگی میں اضافہ
اسرائیلی پولیس نے بتایا کہ مقبوضہ مغربی کنارے میں بھی کشیدگی بڑھ رہی ہےجہاں تین مسلح فلسطینیوں نے ایک ہائی وے چیک پوائنٹ پر صبح کی ٹریفک کے دوران فائرنگ کر دی، جس سے ایک شخص ہلاک اور پانچ زخمی ہو گئے۔
اسرائیل نے 7 اکتوبر کو سرحد پار سے حماس کے عسکریت پسندوں کے اس حملے کے بعد جنگ کا اعلان کیا، جس میں تقریباً 250افراد کو یرغمال بنا لیا گیا۔ اسرائیلی جارحیت میں تقریباّ30 ہزار فلسطینی ہلاک ہوچکے ہیں اور غزہ میں انتہائی بڑے پیمانے پر تباہی اور 80 فیصد آبادی کے در بدر ہوجانے کے نتیجے میں ایک بڑےانسانی بحران نے جنم لیا ہے۔
اسرائیل کےتقریباً نصف یرغمالوں کو نومبر میں ایک ہفتے تک جاری رہنے والی جنگ بندی کے دوران رہا کیا گیا تھا۔ تقریباً 100 یرغمالی اب بھی قید میں ہیں۔
اسرائیل کسی بھی وقفے کے حصے کے طور پر بقیہ یرغمال افراد کی رہائی کا مطالبہ کر رہا ہے اور اس نے حماس کی فوجی اور حکومتی صلاحیتوں کو تباہ کردینے تک جارحانہ کارروائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
عسکریت پسند تنظیم حماس جنگ کا خاتمہ چاہتی ہے،تاہم اس کا مطالبہ فوجوں کا مکمل انخلاء اور ہزاروں فلسطینی قیدیوں کی رہائی ہے جو اسرائیل میں قید ہیں۔ ان میں ہائی پروفائل قیدی مروان برغوتی کی رہائی بھی شامل ہے۔
وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو نے حماس کے مطالبات کو "فریب" قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے۔ لیکن حالیہ دنوں میں اسرائیلی رہنماؤں نے محتاط انداز میں امیدکا اظہار کرنا شروع کر دیا ہے اور حماس نے اشارہ دیا ہے کہ وہ اپنے مطالبات کو نرم کر رہا ہے۔
اسرائیل کی تین رکنی جنگی کابینہ کے رکن وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے کچھ لچک کا اشارہ دیا۔ انہوں نے کہا کہ "ہم اپنے یرغمالوں کے بارے میں مذاکرات کاروں کو دیے گئے اختیار کو وسعت دیں گے۔"
ساتھ ہی انہوں نے خبردار کیا کہ اسرائیلی فوج "بہت بڑی زمینی کارروائیوں کو جاری رکھنے کی تیاری کر رہی ہے۔"
بینی گانٹز، نے جو گیلنٹ اور نیتن یاہو کے ساتھ جنگی کابینہ میں شامل ہیں، کہا ہے کہ اگر یرغمالوں کا کوئی معاہدہ نہیں ہوتا ہے، تو اسرائیل غزہ کے سب سے جنوبی قصبے رفح میں مسلمانوں کے مقدس مہینے رمضان کے دوران زمینی حملہ کرے گا، جس کا آغاز 10 مارچ کے قریب ھوگا۔
دریں اثنا، حماس کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے مستقبل قریب میں "بہت سی پیش رفت" کی امید ظاہر کی۔
غزہ کی 23 لاکھ آبادی میں سے نصف سے زیادہ رفح میں جمع ہے جو علاقے میں کہیں اور لڑائی سے فرار ہونے کے بعدوہاں پہنچی ہے۔ اسرائیل نے کہا ہے کہ وہ حملہ کرنے سے پہلے انہیں وہاں سے نکال لے گا۔ لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ وہ کہاں جائیں گے۔
امریکہ نے اسرائیل پر زور دیا ہے کہ وہ شہریوں کے تحفظ کے منصوبے کے بغیر رفح پر حملہ نہ کرے، جسے حماس کا آخری بڑا گڑھ سمجھا جاتا ہے۔
کربی نے کہا کہ سفیرمیک گرک اسرائیلیوں پر تفصیلات کے لیے دباؤ ڈال رہے تھے۔
26 یورپی ممالک کے وزرائے خارجہ نے جمعرات کے روز لڑائی میں وقفے کی اپیل کی ہے جس کے نتیجے میں طویل جنگ بندی ہو سکے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم