|
پچھلے برس بھارت میں اپوزیشن کی دو درجن سے زیادہ جماعتیں نریندر مودی کا مقابلہ کرنے کے لئے اکھٹی ہوئیں جو نسلوں میں ملک کے مقبول ترین وزراء اعظم میں سے ایک ہیں۔ لیکن قومی انتخابات سے صرف چند ماہ قبل نظریاتی اختلافات اور شخصیتوں کے ٹکراؤ میں گھرے ہوئے وسیع اتحاد میں ایک نازک وقت میں دراڑیں پڑ رہی ہیں -
تجزیہ کار کہتے ہیں کہ رقابتوں، سیاسی انحراف اور نظریاتی تصادم سے شکستہ انڈیا الائینس، جو مودی کو انکے منصب سے ہٹانے اور انکی بھارتیہ جنتا پارٹی کو انتخاب میں شکست دینے کے لئے وجود میں آیا تھا،اسوقت بدنظمی اور افراتفری کا شکار ہے۔
گزشتہ ماہ ایودھیا شہر میں ایک ہندو مندر کے افتتاح کے بعد مودی کی مقبولیت بڑھ رہی ہے۔ مندر کی تعمیر انکی پارٹی کے ہندو قوم پرستی کے پرانے وعدے کی تکمیل تھی۔
اس یونٹی فرنٹ کی قیادت کانگریس کے پاس ہے جو کبھی ملک کی سیاست پر چھائی ہوئی تھی۔ اور اس میں دو درجن سے زیادہ طاقتور علاقائی پارٹیاں شامل ہیں جو بعض ریاستوں میں ایک دوسرے کی براہ راست حریف ہیں۔
جیسے جیسے انتخابات قریب آرہے ہیں ، انکے اختلافات میں بھی شدت آرہی ہے اور مودی کے مسلسل تیسری مدت حاصل کرنے کے امکانات بڑھ رہے ہیں۔
ایک سیاسی مبصر آراتی جے راتھ کہتے ہیں کہ اپوزیشن ابتری کی حالت میں ہے۔ وہ بہت کمزور نظر آتی ہے۔ اور ان میں ہم آہنگی بالکل نہیں ہے۔
بھارت کے انتخابی نظام میں جو امیدوار زیادہ تر ووٹ حاصل کرتا ہے وہ کامیاب قرار پاتا ہے۔ دو ہزار انیس میں مودی کی پارٹی کو 37 فیصد ووٹ ملے تھے اور اس نے پانچ سو تینتالیس کے ایوان میں 303نشستیں حاصل کی تھیں۔
اپوزیشن ہر حلقے میں بی جے پی کے مقابلے ہر ایک امیدوار کھڑا کرکے ٹوٹے ہوئے ووٹ کو مستحکم کرنے کی امید کر رہی ہے۔ انتخابات اپریل، مئی میں متوقع ہیں۔
بھارتی سیاست کے اسکالر اورنئی دہلی میں قائم سینٹر فار پالیسی ریسرچ کے سینئیر فیلو گلس ورنیرس کہتے ہیں کہ اپوزیشن ایک مشترکہ مقصد تلاش کرنے اور ایسا نصب العین تیار کرنے میں ناکام ہو گئی جس سے مودی کو چیلنج کیا جا سکے۔
دوسری جانب تہتر سالہ مودی نے ایک ایسے فارمولے میں مذہب کو سیاست کے ساتھ ملا دیا جو بھارت کی اکثریتی ہندو آبادی کی اسکے باوجود دلوں کی آواز بن گئی کہ اس سے ملک کے سیکیولر تشخص کو نقصان پہنچے۔
ادھر کانگریس کے بڑے لیڈر راہول گاندھی نےجو بااثر گاندھی خاندان کے چشم و چراغ ہیں ،حالیہ مہینوں میں پورے بھارت میں دو پیدل ریلیاں کی ہیں اور بڑے ہجوموں نے انکی پذیرائی کی ہے۔ لیکن ماہرین یہ سوال اٹھاتے ہیں کہ کیا یہ ہجوم ووٹ میں بدل جائیں گے۔
سیاسی ماہرین سوال اٹھاتے ہیں کہ اپوزیشن، بڑھتی ہوئی بے روزگاری اور اقتصادی عدم اطمینان کو مسائل بنانے میں کیوں ناکام رہی جس سے نوے کروڑ ووٹر ان کی جانب مائل ہو سکتے تھے۔
ہر چند کہ بھارت کی معیشت پھیل رہی ہے لیکن اسکی بڑی اور نوجوان ورک فورس میں بے روزگاری ، مودی حکومت کے لئے ایک بڑا چیلنج بن رہی ہے۔
اس سب کے باوجود اگر اقتصادی عدم اطمینان پر حکمراں پارٹی کے خلاف کوئی مقبول شورش نہیں ہوتی، تو مودی کے لئے آرام سے تیسری مدت جیتنے میں کوئی مشکل نظر نہیں آتی۔
اس رپورٹ کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم