|
جنگ سے تباہ حال شمالی غزہ تک اشد ضرورت کی انسانی کی امداد پہنچانے کی کوششوں میں بدھ کے روز اضافہ ہوا جب یورپی یونین نے قبرص سے غزہ تک سمندری راستہ بنانے کے لیے دباؤ بڑھایا اور برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے کہا کہ اسرائیل کے اتحادیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
اگرچہ امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ پورا غزہ ایک انسانی بحران کی لپیٹ میں ہے، لیکن بڑے پیمانے پر الگ تھلگ شمال میں صورت حال انتہائی گھمبیر ہے۔ وہاں اندازے کے مطابق جو تین لاکھ لوگ ابھی تک مقیم ہیں، وہ زندہ رہنے کے لیے جانوروں کا چارہ کھانے پر مجبور ہو چکے ہیں۔
کیا اسرائیل پر عالمی دباؤ کا اثر ہو رہا ہے؟
غزہ بحران کے خاتمے کے لیے عالمی دباؤ کے دوران، اسرائیل کے دو عہدے داروں نے بدھ کو کہا کہ حکومت امداد کو براہ راست اپنی سرزمین سے شمالی غزہ تک جانے کی اجازت دینا شروع کر دے گی اور قبرص سے سمندری راستہ بنانے میں بھی تعاون کرے گی۔
عہدیداروں نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بات کی کیونکہ وہ آئندہ کی ترسیل پر میڈیا کے ساتھ بات کرنے کے مجاز نہیں تھے۔
ایک عہدیدار نے بتایا کہ اسرائیل جمعے کو 20 سے 30 امدادی ٹرکوں کو اسرائیل سے شمالی غزہ میں داخل ہونے کی اجازت دے گا، جو اس راستے سے امداد کی مزید باقاعدہ ترسیل کی شروعات ہو گی۔
اہل کار نے بتایا کہ اسرائیل اتوار کو قبرص میں امداد کی غزہ تک ترسیل سے پہلے حفاظتی چیکنگ بھی شروع کر دے گا۔ یہ جہاز سمندری راستے کی فزیبلٹی جانچنے کے لیے ایک پائلٹ پروجیکٹ کا حصہ ہو گا۔ یہ امداد متحدہ عرب امارات کی مالی اعانت سے ہے اور اس کی ترسیل کا عمل امریکی شمولیت سے ممکن ہوا ہے۔
شمال میں امداد پہنچانے میں حائل مشکلات
امدادی گروپوں نے کہا ہےکہ اسرائیلی فوج کے ساتھ رابطہ کاری میں دشواری، جاری جنگ، اور امن عامہ کی خرابی کی وجہ سے غزہ کے بیشتر علاقوں میں رسد پہنچانا تقریباً ناممکن ہو گیا ہے۔ جب کہ شمال میں امداد پہنچانا اور بھی دشوار ہے۔
امدادی ٹرک غزہ کے جنوبی کنارے پر مصر کے ساتھ واقع رفح کراسنگ یا اسرائیل کے ساتھ واقع کریم شالوم کراسنگ سے روانہ ہو کر تنازع کے زون سے گزر کر بڑے پیمانے پر کٹے ہوئے علاقوں تک پہنچتے ہیں۔
گزشتہ ہفتے، اسرائیلی فوج کی طرف سے امداد کی ترسیل میں سہولت فراہم کرنے کی کوشش ایک سانحے پر ختم ہوئی جب 100 سے زیادہ فلسطینیوں کو اسرائیلی فورسز کی گولیوں کا نشانہ بن کر یا بھگدڑ کے نتیجے میں ہلاک ہوئے۔
امداد کے حوالے سے ترکی ، مصر ، برطانیہ اور یورپی یونین کی کوششیں
بدھ کے روز، غزہ شہر کے مضافات میں سینکڑوں لوگ جنوبی غزہ سے ترکی اور مصر کی امداد سے لدے ٹرکوں پر آٹے کے تھیلوں اور پانی اور ڈبوں میں بند خوراک اکٹھی کرنے کے لیے سمندر کے کنارے سڑک کے ساتھ ساتھ بھاگے۔
برطانوی وزیر خارجہ ڈیوڈ کیمرون نے پارلیمنٹ کے ہاؤس آف لارڈز کو بتایا کہ وہ بدھ کے روز دورے پر آئے ہوئے اسرائیلی حکومت کے وزیر بینی گینٹز کو یہ بتا رہے ہیں کہ غزہ میں انسانی بحران پر اتحادیوں کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ " ہم نے اسرائیلیوں سے بہت کچھ کرنے کو کہا ہے، لیکن مجھے ایوان کو یہ رپورٹ دینا پڑ رہی ہے کہ انہوں نے فروری میں جو امداد وہاں پہنچائی وہ جنوری میں ملنے والی امداد کا نصف تھی۔"
قبرصی حکومت کے ترجمان کوستانتینو اتیمبیوتس نے کہا ہے کہ یورپی یونین کمیشن کی سربراہ ارسلا وان ڈیر لیین جمعے کو لارناکا کی بندرگاہ پر تنصیبات کا معائنہ کرنے کے لیے قبرص کا دورہ کریں گی، جہاں سے سمندری راستہ قائم ہونے کی صورت میں امداد غزہ کے لیے روانہ ہو جائے گی۔
یورپی یونین کے ترجمان ایرک میمر نے کہا کہ بلاک کو امید ہے کہ راہداری "بہت جلد" کھل جائے گی۔
فلسطینیوں کے لیے خوراک کی ترسیل کے فقدان سے فکر مند، امریکہ، اردن اور دوسرے ملکوں نے حالیہ دنوں میں امداد کو فضائی ذریعے سے پہنچانا شروع کیا ہے لیکن امدادی گروپوں کا کہنا ہے کہ فضائی وسائل سے اشد ضروری امداد کا صرف معمولی سا حصہ ہی پہنچایا جا سکتا ہے۔
غزہ میں اسرائیل کی لگ بھگ پانچ ماہ کی جنگ نے فلسطینی علاقے کے بیشتر حصے کو کھنڈرات میں تبدیل کر دیا ہے اور وہاں انسانی ہمدردی کا ایک بد تر ہوتا ہوا بحران پیدا کر دیا ہے ۔
اقوام متحدہ کا کہنا ہے کہ شمال میں 2 سال سے کم عمر کے ہر چھ میں سے ایک بچہ شدید غذائیت کی کمی کا شکار ہے۔ اس خوفناک صورت حال کے پیش نظر بین الاقوامی برادری کی جانب سے اسرائیل اور حماس پر کوئی معاہدہ کرنے کے لیے دباؤ بڑھ رہا ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کو کہا، ہمیں غزہ میں مزید امداد پہنچانی چاہیے، کوئی بہانہ نہیں چلے گا، کوئی بھی نہیں۔
غزہ جنگ کا آغاز 7 اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے ہوا جس میں فلسطینی عسکریت پسندوں نے تقریباً 1,200 افراد کو ہلاک اور 250 کے قریب یرغمال بنا لیا۔ نومبر میں ایک ہفتہ طویل جنگ بندی کے دوران ان میں سے 100 سے زیادہ کو رہا کیا گیا تھا۔
اس حملے کے نتیجے میں اسرائیل نے جوابی طور پر 23 لاکھ لوگوں کے محصور شہر غزہ پر فضائی، زمینی اور بحری کارروائیاں کیں جس کے بارے میں حماس کے زیر انتظام غزہ کی وزارت صحت نے بدھ کو کہا کہ فلسطینیوں کی ہلاکتوں کی تعداد 30,717 ہوگئی ہے۔
اس رپورٹ کا مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم