رسائی کے لنکس

صدر بائیڈن کا شہباز شریف کو خط؛ 'چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا'


  • امریکی صدر جو بائیڈن کا شہباز شریف کے نام خط
  • امریکی صدر کا نو منتخب حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار
  • دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے: صدر بائیڈن

امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں کہا ہے کہ دنیا اور خطے کو درپیش وقت کے اہم ترین چیلنجز کا سامنا کرنے میں امریکہ پاکستان کے ساتھ کھڑا رہے گا۔

وزیرِ اعظم پاکستان کے دفتر کے مطابق شہباز شریف کو لکھے گئے خط میں صدر جو بائیڈن نے نو منتخب حکومت کے لیے نیک تمناؤں کا اظہار بھی کیا۔

صدر بائیڈن کی جانب سے لکھے گئے خط میں کہا گیا ہے کہ دونوں ممالک کے عوام کے درمیان شراکت داری دنیا اور ہمارے عوام کی سلامتی یقینی بنانے میں نہایت اہم ہے۔

صدر بائیڈن کی جانب سے یہ خط ایسے وقت میں لکھا گیا ہے جب حال ہی میں امریکی کانگریس میں پاکستان سے متعلق سماعت کے دوران الیکشن میں بے ضابطگیوں کی شکایات کے ازالے پر زور دیا گیا تھا۔

امریکی معاون وزیرِ خارجہ برائے وسطی و جنوبی ایشیائی اُمور ڈونلڈ لو نے سماعت کے دوران مبینہ سائفر لیک کے معاملے کو جھوٹ قرار دیا تھا۔

انتخابات کے بعد امریکی کانگریس کے بعض ارکان نے صدر بائیڈں کو خط بھی لکھا تھا جس میں زور دیا گیا تھا کہ انتخابات میں دھاندلی کی شکایات کے ازالے تک پاکستان کی نئی حکومت کو تسلیم نہ کیا جائے۔

امریکی صدر کی جانب سے لکھے گئے خط میں مزید کہا گیا ہے کہ امریکہ پاکستان گرین الائنس فریم ورک کے ذریعے ماحولیاتی بہتری کے اپنے اتحاد کو مضبوط کریں گے۔

صدر بائیڈن , کا خط میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان میں پائیدار زرعی ترقی اور 2022 کے سیلاب کے تباہ کن اثرات سے بحالی میں پاکستان کی معاونت جاری رکھیں گے۔

واضح رہے کہ 2022 میں پاکستان کے صوبہ سندھ، بلوچستان اور خیبرپختونخوا میں آنے والے تباہ کن سیلاب سے بڑے پیمانے پر اراضی زیرِ آب آ گئی تھی جب کہ لاکھوں افراد بے گھر ہو گئے تھے۔

پاکستان نے اس سیلاب کو موسمیاتی تبدیلیوں کے اثرات کا شاخسانہ قرار دیا تھا۔

صدر بائیڈن کا اپنے خط میں مزید کہنا تھا کہ پاکستان کے ساتھ مل کر انسانی حقوق کے تحفظ اور ترقی کے فروغ کے لیے پرعزم ہیں۔ دونوں اقوام کے درمیان استوار مضبوط پارٹنر شپ کو تقویت دیں گے۔

'یہ معمول کی بات ہے'

سابق سفارت کار عاقل ندیم کہتے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن کا خط موجودہ صورتِ حال میں ایک معمول کا خط لگ رہا ہے کیوں کہ جب بھی نئی حکومت تشکیل پاتی ہے تو اس طرح کے مبارک باد کے خطوط سربراہان حکومت کو موصول ہوتے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے عاقل ندیم کہتے ہیں کہ اس طرح کا خط عمران خان کے حکومت سنبھالنے پر انہیں بھی موصول ہوا تھا۔ لہذٰا اس میں کوئی خاص بات نہیں ہے۔

عاقل ندیم کے بقول حالیہ دنوں میں ڈونلڈ لو کا بیان بھی سامنے آیا تھا جس میں ان کا کہنا تھا کہ وہ نئی حکومت کے ساتھ زیادہ بہتر انداز میں بات کر سکتے ہیں۔ امریکی صدر کی طرف سے جو خط لکھا گیا ہے اس میں بھی نئی حکومت کے ساتھ مل کر کام کرنے کا کہا گیا ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ موجودہ حکومت کے پاس پانچ سال کا مینڈیٹ ہے اور تمام حکومتیں آپس میں ایک دوسرے سے بات کرتی ہیں۔

عاقل ندیم کہتے ہیں کہ امریکی صدر جو بائیڈن کے اپنے لیے بھی اگلے چند ماہ خاصے مشکل ہیں اور انہیں انتخابات میں حصہ لینا ہے۔ ایسے میں وہ کسی بھی ملک کے حوالے سے کوئی اہم فیصلہ نہیں لے سکتے۔

پاکستان کے سابق سیکرہٹری خارجہ اعزاز چودھری کہتے ہیں کہ ایسے خطوط بنیادی طور پر سفارتی شائستگی کا مظہر ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ پاکستان کے امریکہ کے ساتھ تعلقات میں گرمجوشی نہیں تھی، لہذٰا اس تناظر میں صدر بائیڈن کا خط اہمیت کا حامل ہے۔

اُن کے بقول اس خط کے ذریعے حکومت یہ دعویٰ کر سکتی ہے کہ امریکہ نے ایک لحاظ سے پاکستان کی نئی حکومت اور انتخابی نتائج کو تسلیم کر لیا ہے۔

بین الاقوامی امور کے تجزیہ کار اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات کم سطح پر ہونے کے باوجود امریکہ پاکستان سے مکمل طور پر الگ نہیں ہونا چاہتا۔

یاد رہے کہ افغانستان سے انخلا کے بعد خیال کیا جاتا تھا کہ کابل میں طالبان کی واپسی کے بعد وہاں امن آجائے گا لیکن ایسا نہیں ہوا۔

اعجاز خٹک کہتے ہیں کہ یہ خط پاکستان اور امریکہ کے درمیان تعلقات کو نئی سمت پر استوار کرنے کی ایک کرن ہے۔ لیکن انھون نے کہا کہ خطے کے ابھرتے ہوئے چیلنج اور افغانستان میں دہشت گردی کے خطرات کے پیش نظر امریکہ کے لیے پاکستان اہم ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG