|
رائٹرز نے اطلاع دی ہے کہ اسرائیل نے غزہ میں اپنی فوجی کارروائیوں کے دوران حراست میں لیے گئے 150 فلسطینیوں کو پیر کے روز رہا کر کے غزہ واپس بھیج دیا ہے، جن میں سے کئی نے الزام لگایا ہےکہ ان کے ساتھ قید کے دوران ناروا سلوک کیا گیا ، یہ بات فلسطینی سرحدی حکام نے بتائی۔
رائٹرز کے مطابق سرحدی حکام نے بتایا کہ حراست میں لیے گئے افراد کو ، پیر کے روز جنوبی غزہ میں اسرائیل کے کنٹرول والی کریم شالوم کراسنگ کے ذریعے رہا کیا گیا ۔ ان میں فلسطینی ہلال احمر سوسائٹی (PRCS) کے دو ارکان بھی شامل ہیں جنہیں 50 دن تک حراست میں رکھا گیا تھا ۔
عہدہ داروں نے بتایا کہ متعدد کو اسپتالوں میں داخل کردیا گیا، جنہوں نے اسرائیلی جیلوں میں بدسلوکی اور ناروا سلوک کی شکایت کی ہے۔
اسرائیلی فوج کی جانب سے الزامات کی تردید
اسرائیلی فوج نے رائٹرز کو ایک بیان میں کہا کہ وہ اسرائیلی اور بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کرتی ہے اور جن لوگوں کو وہ گرفتار کرتی ہے انہیں خوراک، پانی، ادویات اور مناسب لباس تک رسائی ہوتی ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ ،"آئی ڈی ایف( اسرائیلی ڈیفینس فورس) اسرائیل کے شہریوں کی سلامتی کی بحالی، یرغمالوں کو گھر لانے اور جنگ کے مقاصد کو حاصل کرنے کے لیے بین الاقوامی قانون کے مطابق کام کر رہی ہے مزید یہ کہ نامناسب برتاؤ کے بارے میں مخصوص شکایات جائزے کےلئے متعلقہ حکام کو بھیج دی گئی ہیں۔
قیدیوں کے الزامات
غزہ کی سول ایمرجنسی سروس نے کہا کہ پیر کے روز رہا کیے گئے قیدیوں کو "مختلف قسم کے بدسلوکی اور تشدد" کا نشانہ بنایا گیا تھا اور متعدد لوگوں کو رہائی کے بعد اسپتال میں داخل کیا گیا۔ محکمے نے جسمانی یا ذہنی استحصال کی کوئی تفصیل فراہم نہیں کی،
رہائی پانے والوں میں سے متعددکا کہنا تھا کہ ان سے اس بارے میں پوچھ گچھ کی گئی تھی کہ آیا ان کا غزہ پر کنٹرول کرنے والے عسکریت پسند گروپ حماس سے کوئی تعلق تھا۔
خان یونس کے مشرق میں ابسان قصبے کے 42 سالہ رہائشی اور چار بچوں کے والد سفیان ابو صلاح نے ہسپتال سے رائٹرز کو فون پر بتایا کہ "میں دو ٹانگوں کے ساتھ جیل گیا اور ایک ٹانگ کے ساتھ واپس آیا۔"
ابو صلاح نے کہا، "میری ٹانگ میں سوزش تھی اور انہوں نے (اسرائیلیوں) نے مجھے ہسپتال لے جانے سے انکار کر دیا، ایک ہفتے بعد سوزش پھیل گئی اور گینگرین بن گئی۔ وہ مجھے اسپتال لے گئے جہاں میری سرجری ہوئی،" انہوں نے مزید کہا کہ ان کے اسرائیلی اغوا کاروں نے انہیں مارا پیٹا تھا۔
انہوں نے بتایا کہ اسرائیلی فورسز نے انہیں فروری کے آخر میں ایک اسکول سے گرفتار کیا تھا جہاں وہ اور ان کا خاندان بناہ لیے ہوئے تھا۔
ان کا کہنا ہے انہیں گرفتاری سے قبل کوئی بیماری لاحق نہیں تھی، اور یہ کہ کہ انہیں کچھ پتہ نہیں تھا کہ انہیں کہاں رکھا گیا تھا، تاہم انہوں نے کہاکہ " وہ کوئی جیل نہیں بلکہ کسی فوجی کیمپ جیسی جگہ لگتی تھی۔"
اسرائیل کے پاس کتنے فلسطینی قید ہیں
فلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن کے مطابق غزہ اور مغربی کنارے دونوں سے کم از کم 9,100 فلسطینی اسرائیل میں زیر حراست ہیں۔ ان اعداد و شمار میں 7 اکتوبر کی جنگ کے آغاز سے غزہ میں گرفتار ہونے والے افراد شامل نہیں ہیں کیونکہ اسرائیل نے اپنی فوجی کارروائی سے متعلق اعداد و شمار د ظاہر نہیں کئے ہیں۔
دسمبر میں، اقوام متحدہ کے انسانی حقوق کے دفتر (او ایچ سی ایچ آر) نے کہا تھاکہ اسے اسرائیلی فوج کی طرف سے شمالی غزہ میں فلسطینیوں کو بڑے پیمانے پر حراست، بد سلوکی اور جبری گمشدگی کی متعدد اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
فلسطینی اور انسانی حقوق کے بین الاقوامی گروپس نے کہا ہے کہ وہ اسرائیلی جیلوں میں بدسلوکی کے دعوؤں سے آگاہ ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ اسرائیل غزہ کے قیدیوں کے بارے میں معلومات ظاہر کرنے سے انکار کرتا رہا ہے، جن میں یہ معلومات شامل ہیں کہ اس نے کتنے لوگوں کو پکڑ کر رکھا ہےاور کہاں ۔
پیر کے روز، انٹرنیشنل کمیٹی آف ریڈ کراس (آئی سی آر سی) نے رائٹرز کو بتایا کہ وہ اکتوبر کے بعد سے اسرائیلی جیلوں میں قید کسی بھی فلسطینی قیدی سے اس وقت سے نہیں مل سکے ہیں جب اسرائیل نے اس طرح کے دوروں کو معطل کر دیا تھا ۔ لیکن اس کا کہنا تھا کہ وہ اسرائیلی فورسز کی جانب سے گرفتاریوں کی بہت زیادہ شرح اور قیدیوں کےساتھ بد سلوکی کے حوالے سےمیڈیا کی رپورٹس سے آگاہ ہے۔
مقبوضہ علاقوں کے قیدی او رجنیوا کنونشن
آئی سی آر سی نے کہا کہ " 1949 کے چوتھے جنیوا کنونشن کے تحت مقبوضہ علاقوں سے منسلک قیدیوں کو محفوظ افرادسمجھا جاتا ہے ۔ "آئی سی آر سی کو آزادی سے محروم تمام محفوظ افراد کے بارے میں مطلع کیا جانا چاہیے اور اس بات کو یقینی بنانا چاہیے کہ انہیں جیلوں، ہسپتالوں یا فوجی کیمپوں سمیت جہاں کہیں بھی رکھا گیا ہو ، آئی سی آر سی کے نمائندوں کو ان تک رسائی حاصل ہو۔
فلسطینی قیدیوں کی ایسوسی ایشن نے اسرائیل پر الزام لگایا ہے کہ وہ غزہ میں حراست میں لیے گئے لوگوں کے بارے میں اور ان کے قید کےمقامات کے بارےمیں معلومات کو مسلسل خفیہ رکھے ہوئے ہے۔
اسرائیل کا یرغمالوں کے ساتھ بد سلوکی کا الزام
غزہ میں اسرائیل کی کارروائی حماس کے 7 اکتوبر کے حملے سے شروع ہوئی تھی، جس میں اس کے جنگجووں نے 1,200 افراد کو ہلاک اور 253 کو یرغمال بنایا تھا۔ اسرائیل نے حماس پر یرغمالوں کے ساتھ بدسلوکی کا الزام لگایا ہے جس میں جنسی زیادتی بھی شامل ہے۔
غزہ پر اسرائیلی بمباری میں 33,000 سے زیادہ فلسطینی ہلاک اور ہزاروں زخمی ہوئے ہیں، اور بہت سے لوگوں کے بارےمیں خدشہ ہے کہ وہ ملبےتلےدبےہیں۔۔ غزہ کی 23لاکھ آبادی میں اکثریت بے گھر ہو چکی ہے اور امدادی اداروں نے خبردار کیا ہے کہ وہاں عنقریب قحط آسکتا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد رائٹرز سےلیا گیا ہے۔
فورم