رسائی کے لنکس

اسرائیل کا حماس پر جنگ بندی معاہدہ رد کرنے کا الزام


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • اسرائیل کے مطابق حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی تازہ تجویز مسترد کر دی ہے۔
  • اسرائیلی حکام کے مطابق حماس کے رہنما انسانی معاہدے اور یرغمالوں کی واپسی نہیں چاہتے۔
  • اسرائیل نے غزہ سے یرغمال شہریوں کی واپسی تک کارروائی جاری رکھنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔

اسرائیل کے وزیرِ اعظم بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے بیان میں کہا گیا ہے کہ فلسطینی عسکری تنظیم حماس نے غزہ میں جنگ بندی کی نئی تجویز مسترد کر دی ہے۔

اسرائیلی خفیہ ایجنسی ‘موساد’ کی طرف سے وزیرِ اعظم کے دفتر کو اتوار کو ایک بیان بھیجا گیا جو کہ بعد ازاں وزیرِ اعظم آفس نے جاری کیا جس میں کہا گیا ہے کہ جنگ بندی کی تجویز رد کیے جانے سے ثابت ہوتا ہے کہ (حماس کے غزہ میں سربراہ یحییٰ) سِنوار انسانی معاہدے اور یرغمالوں کی واپسی نہیں چاہتے۔

بیان کے مطابق اسرائیل غزہ میں جاری کارروائی اپنے عزائم پورے ہونے تک پوری طاقت کے ساتھ جاری رکھے گا۔ بیان میں واضح کیا گیا ہے کہ 133 یرغمالوں کی واپسی کے لیے کوئی کسر نہیں چھوڑی جائے گی۔

دوسری طرف حماس نے ہفتے کو جاری ایک بیان میں کہا تھا کہ اس نے غزہ میں اسرائیل کے ساتھ مجوزہ معاہدے پر مصری اور قطری ثالثوں کو اپنا جواب پیش کر دیا ہے جس میں مستقل جنگ بندی پر زور دیا گیا ہے۔

خیال رہے کہ جنگ بندی سے متعلق مذاکرات رواں ماہ سات اپریل کو مصر کے دارالحکومت قاہرہ میں شروع ہوئے تھے جن میں امریکہ، قطر اور مصر بطور ثالث موجود تھے البتہ ان مذاکرات میں پیش کردہ منصوبے پر کوئی پیش رفت نہیں ہوئی۔

ان مذاکرات کے حوالے سے ایک بیان میں حماس نے مستقل جنگ بندی کے ساتھ ساتھ غزہ سے اسرائیل کی فوج کے انخلا، نقل مکانی کرنے والے بے گھر افراد کو اپنے علاقوں اور رہائش گاہوں میں واپس آنے کی اجازت، امداد میں اضافے اور تعمیر نو کے آغاز جیسے مطالبات پیش کیے تھے۔

خیال رہے کہ امریکہ حماس کو دہشت گرد تنظیم قرار دے چکا ہے۔

حماس کا کہنا تھا کہ وہ قیدیوں کی سنجیدہ تبادلے کے لیے تیار ہے۔

تاہم بن یامین نیتن یاہو نے عالمی برادری اور امریکہ کے دباؤ کو نظر انداز کرتے ہوئے مستقل جنگ بندی کی مخالفت کی ہے۔

بن یامین نیتن یاہو کئی بار مصر کے ساتھ واقع غزہ کے علاقے رفح میں زمینی کارروائی کے لیے فوج بھیجنے کا عزم ظاہر کر چکے ہیں۔

بن یامین نیتن یاہو کے دفتر سے ہفتے کو جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ یرغمالوں کی رہائی میں رکاوٹ صرف حماس ہے۔ اسرائیل کی طرف سے اس میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔

واضح رہے کہ حماس نے سات اکتوبر کو اسرائیل پر حملہ کیا تھا جس میں اسرائیلی حکام کے مطابق لگ بھگ 1200 افراد ہلاک ہوئے تھے۔ اس حملے کے دوران حماس نے لگ بھگ ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا لیا تھا۔ ان یرغمال افراد میں سے 100 سے زائد کو نومبر میں ہونے والی ایک ہفتے کی عارضی جنگ بندی میں رہا کر دیا گیا تھا۔

دوسری جانب حماس کے زیرِ انتظام غزہ کے محکمۂ صحت کے مطابق سات اکتوبر 2023 سے جاری اسرائیل کے حملوں اور زمینی کارروائی میں لگ بھگ 33 ہزار فلسطینی مارے جا چکے ہیں جن میں اکثریت بچوں اور خواتین کی ہے۔

اسرائیل اور حماس میں جنگ بندی کے لیے متعدد بار مذاکرات ہو چکے ہیں البتہ یہ بات چیت کسی حتمی مرحلے تک نہیں پہنچ سکی ہے۔

حماس کی تحویل میں اب بھی 100 سے زائد یرغمالی موجود ہیں جب کہ بعض اطلاعات کے مطابق 30 یرغمالی ہلاک ہو چکے ہیں جن کی باقیات بھی حماس کے پاس ہیں۔

خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کے مطابق حماس کے ذرائع کا دعویٰ ہے کہ جنگ بندی ہونے کی صورت میں تمام یرغمالوں کو رہا کر دیا جائے گا۔

’اے ایف پی‘ نے ذرائع کے حوالے سے رپورٹ کیا ہے کہ یرغمالوں کو مرحلہ وار رہا کیا جائے گا۔

اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG