|
نئی دہلی _ بھارت میں 26 اپریل کو عام انتخابات کے دوسرے مرحلے سے قبل سیاسی بیانات میں تلخی آ گئی ہے۔ خاص طور پر مسلمانوں سے متعلق وزیرِ اعظم نریندر مودی کے بیان کے بعد سیاست دانوں، تجزیہ کاروں اور سول سوسائٹی کی جانب سے شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔
وزیرِ اعظم مودی نے اتوار کو ایک انتخابی ریلی کے دوران مسلمانوں کو مبینہ طور پر زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور درانداز قرار دیا ہے۔
راجستھان کے بانسواڑہ میں تقریر کرتے ہوئے وزیرِ اعظم مودی نے کہا تھا کہ کانگریس کا انتخابی منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماں بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے اور پھر اسے ان سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیں گے۔ انہوں نے علی گڑھ میں پیر کو بھی اسی طرح کا بیان دیا۔
وزیرِ اعظم مودی نے اپنی تقریر کے دوران اپوزیشن جماعت کانگریس پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ کانگریس کا انتخابی منشور کہہ رہا ہے کہ وہ ماں بہنوں کے سونے کا حساب کریں گے اور پھر اسے ان سے چھین کر مسلمانوں میں تقسیم کر دیں گے۔ ان کے بقول کانگریس سے تعلق رکھنے والے سابق وزیرِ اعظم ڈاکٹر من موہن سنگھ نے کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق مسلمانوں کا ہے۔
کانگریس نے وزیرِ اعظم مودی کے بیان پر شدید تنقید کی ہے اور من موہن سنگھ کے بیان کو مسخ کر کے پیش کرنے کا الزام لگایا ہے۔
واضح رہے کہ سابق وزیرِ اعظم من موہن سنگھ نے 2006 میں ایک بیان میں کہا تھا کہ ملک کے وسائل پر پہلا حق قبائلیوں، اقلیتوں اور بالخصوص مسلمانوں سمیت تمام محروم طبقات کا ہے۔
کانگریس سمیت متعدد اپوزیشن جماعتوں اور سول سوسائٹی نے وزیرِ اعظم مودی کے بیان کی مذمت کرتے ہوئے الیکشن کمیشن سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ وزیرِ اعظم کے خلاف کارروائی کرے اور ان کی امیدواری منسوخ کرے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق الیکشن کمیشن نے صحافیوں کے سوالوں کے جواب میں کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی سے تعلق رکھنے والے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے بھی اتوار کو مغربی بنگال کے دارجیلنگ میں ایک ریلی سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا کہ "آپ فکر نہ کریں پاکستان کے کنٹرول والے کشمیر کے بھائی بہن بھی خود ہی بھارت کے ساتھ رہنے کا مطالبہ کریں گے۔"
ان بیانات کی روشنی میں تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ سوال پوچھا جا رہا ہے کہ کیا اب انتخابات حقیقی مسائل کے بجائے مسلمان اور ہندو کے نام پر لڑے جائیں گے؟
اپوزیشن جماعت کانگریس کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ دراصل 19 اپریل کو عام انتخابات کے پہلے مرحلے کی پولنگ سے حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) گھبرا گئی ہے۔ ان کے مطابق نریندر مودی کو شکست کا احساس ہو رہا ہے اس لیے وہ ایسی باتیں کر رہے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ پہلے مرحلے میں ٹرن آؤٹ کم ہونے پر بی جے پی یہ محسوس کرنے لگی ہے کہ اس کی شکست ہو سکتی ہے۔ اس لیے اس کے رہنما اصل مسائل کو نظرانداز کر کے جذباتی مسائل اٹھانے لگے ہیں۔
سینئر تجزیہ کار ہرویر سنگھ کہتے ہیں وزیرِ اعظم مودی نے جو بیان دیا ہے وہ حکومت کی پالیسی نہیں۔ اس کا مقصد صرف ووٹرز کو اپنی جانب متوجہ کرنا ہے۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ وزارتِ عظمیٰ کے منصب پر فائز شخص کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ 20 کروڑ مسلمانوں کو زیادہ بچے پیدا کرنے والے اور درانداز قرار دے۔ ان کے بقول نہ تو بھارت کا آئین اس قسم کے بیانات دینے کی اجازت دیتا ہے اور نہ ہی الیکشن کمیشن کے ضوابط میں ایسی گنجائش ہے۔
ہرویز سنگھ کے مطابق وزیرِ اعظم مودی کا بیان انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی ہے اور اس پر کمیشن کو توجہ دینی چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ مسلمان بھی اس ملک کے شہری ہیں اور ان کو بھی مساوی حقوق حاصل ہیں۔
وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ کے بیان کے بارے میں انہوں نے کہا کہ کشمیر کے بارے میں حکومت کا مؤقف یہ ہے کہ پورا کشمیر بھارت کا حصہ ہے۔ حکومت پاکستان کے کنٹرول والے کشمیر کو بھارت میں ملانے کی بات کرتی رہی ہے۔
واضح رہے کہ بھارت میں 19 اپریل سے شروع ہونے والے عام انتخابات سات مختلف مراحل میں ہو رہے ہیں۔ دوسرا مرحلے میں 26 اپریل کو 13 ریاستوں میں پولنگ ہو گی۔
'وزیرِ اعظم کو کارکردگی کی بنیاد پر ووٹ مانگنا چاہیے'
تجزیہ کار ڈاکٹر ابھے کمار کہتے ہیں کہ وزیرِ اعظم مودی 10 سال سے حکومت میں ہیں اور انہیں اپنی کارکردگی کی بنیاد پر عوام سے ووٹ مانگنا چاہیے لیکن وہ سمجھتے ہیں کہ وہ اس طرح ووٹ حاصل نہیں کر سکتے۔ ان کو اسی صورت میں ووٹ مل سکتا ہے جب وہ مذہبی جذبات کو ابھارنے کی کوشش کریں گے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ایسا نہیں ہے کہ بی جے پی کے رہنما ترقی کی بات نہیں کرتے۔ لیکن مجموعی طور پر وہ جارحیت پسندی کے بیانیے کو آگے بڑھا رہے ہیں۔
ابھے کمار کہتے ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں کانگریس، سماجوادی پارٹی اور بہوجن سماج پارٹی سماجی انصاف اور محروم طبقات کو حقوق دینے اور مساوات کی بات کر رہی ہیں۔ چوں کہ ملکی سیاست کو مذہبی رنگ دے دیا گیا ہے اور عوام کا ایک بڑا طبقہ اس سے متاثر بھی ہے۔ لہٰذا اپوزیشن جماعتوں میں بھی ایک بے چینی ہے اور وہ ایسا سوچتی ہیں کہ وہ اگر عارضی طور پر اپنے نظریات کو الگ رکھ کر بی جے پی کی طرح ہندوتوا کی پالیسی اپنا لیں تو انہیں بھی کامیابی مل سکتی ہے۔
مبصرین بھی اس خیال کے حامی ہیں کہ پہلے مرحلے میں بی جے پی کمزور دکھائی دی جس کی وجہ سے اس کے رہنماؤں کی جانب سے ایسے بیانات دیے جا رہے ہیں۔
البتہ بی جے پی نے وزیرِ اعظم مودی کے بیان کا دفاع کیا ہے۔ پارٹی ترجمان گورو بھاٹیہ کے مطابق نریندر مودی نے صرف عوامی جذبات کی عکاسی کی ہے۔
سینئر تجزیہ کار اور صحافی راہل دیو نے ایک یوٹیوب چینل پر ہونے والے مباحثے میں شرکت کرتے ہوئے کہا کہ ایسا لگتا ہے کہ وزیرِ اعظم پریشان ہیں اور ان کی خود اعتمادی متزلزل ہو گئی ہے۔ اسی وجہ سے وہ ایسی زبان استعمال کر رہے ہیں۔
بعض قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نریندر مودی کی مذکورہ تقریر ہیٹ اسپیچ اور انتخابی ضابطہ اخلاق کی خلاف ورزی کے زمرے میں آتی ہے۔ لیکن اس کی امید کم ہے کہ الیکشن کمیشن ان کے خلاف کوئی کارروائی کرے گا۔
فورم