|
پاکستان میں اس وقت گندم کی نئی فصل کی آمد آمد ہے اور فصل کٹ کر منڈیوں تک پہنچنا شروع ہو گئی ہے۔ لیکن باردانہ کی عدم دست یابی اور حکومت کی جانب سے مقرر کردہ امدادی قیمت سے بھی کم نرخ پر گندم کی فروخت نے کسانوں کو پریشان کر دیا ہے۔
ملک میں گندم کی صورتِ حال اور کسانوں کی پریشانی کا ذکر اب قانون ساز ایوانوں میں بھی ہو رہا ہے۔
کسان تنظیموں کا مؤقف ہے کہ اگر حکومت نے ان کے مسائل پر توجہ نہ دی تو وہ آئندہ سال گندم کی کاشت کم کردیں گے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں صوبۂ سندھ میں گندم کی امدادی قیمت چار ہزار روپے فی من جب کہ پنجاب میں 3900 روپے فی من مقرر کی گئی ہے۔
کسان رہنماؤں اور عام کاشت کاروں کی رائے ہے کہ حکومت نے کسانوں کو مافیا اور ذخیرہ اندوزوں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا ہے۔ ان کے بقول، حکومت کی پالیسیوں کا کسان کو بہت زیادہ نقصان ہو رہا ہے۔
پنجاب کے ضلع پاکپتن کے زمیندار راؤ حامد علی خان کہتے ہیں کہ ملک بھر میں گندم کی فصل پَک کر تیار ہو چکی ہے۔ کسان اُس فصل کو کاٹ کر فروخت کرنا چاہتا ہے تا کہ اُسے اپنی چھ ماہ کی محنت کا پھل مل سکے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ ابھی تک اُن کے ضلع میں حکومت کی جانب سے گندم کی خریداری شروع ہوئی ہے نہ ہی اُس کا کوئی شیڈول سامنے آیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ابھی تک زمیندار اپنی فصل منڈیوں میں اپنی مدد آپ کے تحت فروخت کر رہا ہے۔
راؤ حامد نے کہا کہ حکومت کی جانب سے کسانوں میں باردانہ کی تقسیم سے متعلق بھی کوئی منصوبہ بندی سامنے نہیں آئی ہے جس سے ان سمیت دیگر کسانوں کی پریشانی بڑھتی جا رہی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس وقت ملک کی منڈیوں میں صرف ذخیرہ اندوز موجود ہیں جو کسان کی چھ ماہ کی فصل کی محنت کی قیمت 3400 سے 3600 روپے فی من کے حساب سے دے رہے ہیں اور اُنہیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہے۔
ضلع رحیم یار خان سے تعلق رکھنے والے گندم کے کاشت کار زاہد نذیر بتاتے ہیں کہ اُن کے ضلع اور آس پاس کے دیگر اضلاع میں گندم کا نرخ 3200 سے 3600 روپے فی من ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے زاہد نذیر کا کہنا تھا کہ اِس وقت منڈیوں میں بیوپاری اور ذخیرہ اندوز گندم خرید رہے ہیں جو بعد میں اس گندم کو فروخت کریں گے اور ان کی جواب دہی بھی نہیں ہو گی۔
فصل پر آنے والے اخراجات اور قیمت میں فرق؟
زمیندار راؤ حامد علی خان کہتے ہیں کہ بوائی کے وقت گندم کے نرخ 5000 سے 5500 سو روپے فی من تک تھے۔ اس کی کاشت پر آنے والی لاگت میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے جب کہ کسان کو اِس کی سرکاری قیمت 3900 سو روپے فی من بھی نہیں مل رہی۔
ان کے بقول جب گندم کی فصل بوئی تھی تو اُس وقت ڈی اے پی کھاد کی فی بوری کی قیمت 13 ہزار روپے اور یوریا کھاد کی قیمت کم از کم پانچ ہزار روپے تھی۔
انہوں نے بتایا کہ گندم کی فصل کو چار پانی لگائے جاتے ہیں اور ایک پانی کا فی ایکٹر خرچہ چار سے پانچ ہزار روپے ہوتا ہے۔ اِس کے علاوہ زمین کی تیاری پر 15 سے 20 ہزار روپے فی ایکڑ اخراجات آتے ہیں۔
کاشت کار زاہد نذیر نے الزام لگایا کہ اُن کے ضلع میں محکمۂ خوراک اور محکمۂ پاسکو کی ملی بھگت سے کچھ لوگ پاسکو سے گندم کی خالی بوری پانچ روپے میں خریدتے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ لوگ منڈی سے 3200 روپے فی من کے حساب سے گندم خرید کر اسی بوری کو پاسکو کو 3900 روپے میں فروخت کر دیتے ہیں۔
حامد علی نے بتایا کہ وہ دیگر اضلاع کے کسانوں سے بھی رابطے میں رہتے ہیں۔ لیکن کسی بھی جگہ سے سرکاری طور پر گندم کی خریداری کے بارے میں نہیں سنا۔
اُن کا کہنا تھا کہ گندم سمیت کسی بھی فصل کو بیچتے وقت کسان کو نقصان ہوتا ہے جس پر کوئی بھی حکومت عملی طور پر کچھ نہیں کرتی۔
انہوں نے کہا کہ گندم کی خریداری کے وقت مڈل مین جس میں ذخیرہ اندوز، بروکر اور محکمے کے اپنے لوگ شامل ہیں، وہ کسان کی مجبوری کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اصل منافع وہ لوگ کماتے ہیں۔
زاہد نذیر کے مطابق حکومت ایک ایکڑ کے عوض کسان کو چھ بوریاں باردانہ دے گی جس کا مطلب ہے کہ اس میں لگ بھگ 15 من گندم آئے گی۔ لیکن ان کے بقول گندم کی فی ایکڑ پیداوار اوسطاً 55 من آ رہی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ کسان نے باقی 40 من گندم بھی تو فروخت کرنی ہے۔
واضح رہے کہ محکمۂ خوراک کے مطابق ملک بھر میں ہر سال تقریباً 10 فی صد تک گندم منڈیوں میں ترسیل کے باعث ضائع ہو جاتی ہے۔
ادھر پنجاب کے وزیرِ خوراک بلال یاسین کہتے ہیں کہ حکومت چند وجوہ کی بنیاد پر سرکاری سطح پر گندم کی خریداری تاحال شروع نہیں کر سکی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایک وجہ یہ بھی ہے کہ حکومت کے پاس پہلے سے گندم کے وافر مقدار میں ذخائر موجود ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس وقت صرف محکمۂ خوراک پنجاب کے پاس 23 لاکھ میٹرک ٹن گندم موجود ہے جس کی وجہ سے نئی خریداری میں تاخیر کی جا رہی ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کے پاس گندم کی خریداری کے وسائل (فنڈز) بھی موجود نہیں ہیں جس کے لیے بینکوں سے بات چیت جاری ہے۔
بلال یاسین کے بقول زیادہ شرح سود کے باعث حکومت کی بینکوں سے معاہدے میں تاخیر ہو رہی ہے۔ لیکن امید ہے کہ جلد ان مسائل پر قابو پالیں گے۔
'کسانوں کو ہر صورت ریلیف دیں گے'
کسانوں کی پریشانی کا ذکر ملک کے ایوانوں تک بھی پہنچ گیا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی ملک احمد خان نے اسمبلی آمد کے موقع پر میڈیا نمائندوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ اب زیادہ گندم کاشت اور امپورٹ ہو گئی ہے۔ اب حکومت کو ہر چیز کرنا پڑے گی جس سے کسانوں کو ریلف مل سکے۔
انہوں نے کہا کہ حکومت کسانوں کو ہر صورت ریلیف دے گی۔
ملک احمد خان کا کہنا تھا کہ بڑی تعداد میں نجی سطح پر گندم درآمد کی گئی جسے اب رکھ بھی نہیں سکتے۔ ان کے بقول درآمد شدہ گندم کا معیار برا ہے۔
اسپیکر پنجاب اسمبلی کے مطابق اوپن مارکیٹ میں گندم 2500 روپے فی من میں فروخت ہو رہی ہے جب کہ سپورٹ پرائس یعنی امدادی قیمت 3900 روپے فی من ہے۔
دوسری جانب وفاقی وزیر برائے نیشنل فوڈ سیکیورٹی رانا تنویر حسین نے قومی اسمبلی میں جمعرات کو اظہارِ خیال کرتے ہوئے کہا تھا کہ نگراں حکومت نے غلط وقت پر زیادہ گندم درآمد کی جس کے باعث حکومت کے پاس گندم کے وافر ذخائر موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ گندم کی درآمد نگراں حکومت کے دور میں کی گئی تھی، وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اس کی انکوائری کا حکم دیا ہے۔
رانا تنویر حسین نے ایوان کو بتایا کہ پنجاب حکومت موسم میں نمی کی وجہ سے فی الفور گندم کی خریداری نہیں کر رہی ہے۔
ادھر کسانوں کی مختلف نمائندہ تنظیموں کا کہنا ہے کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں کا از سرِ نو جائزہ لینا چاہیے۔ حکومتی پالیسوں کی وجہ سے کسان کو مسلسل نقصان ہو رہا ہے۔
'کسانوں کی محنت کا معاوضہ دیا جائے'
محکمۂ زراعت پنجاب کے مطابق رواں سال صوبے میں ایک کروڑ 74 لاکھ ایکڑ رقبے پر گندم کی فصل اگائی گئی ہے جو گزشتہ سال سے 12 لاکھ ایکڑ زیادہ ہے۔
دوسری جانب کسان بورڈ پاکستان کے مرکزی صدر سردار ظفر حسین نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ حکومت کسانوں کا مالی استحصال نہ کرے، اُنہیں محنت کا معاوضہ ملنا چاہیے۔
اُن کا کہنا تھا کہ حکومت کی ناقص گندم خریداری پالیسی اور کاشت کاروں کے مالی استحصال کے باعث پاکستان کا کسان آئندہ برس گندم کاشت نہ کرنے پر مجبور ہو گا۔
فورم