|
حماس کے سربراہ اسماعیل ہنیہ نے جمعرات کو کہا ہے کہ گروپ غزہ میں جنگ بندی کی تجویز کا نیک نیتی سے جائزہ لے رہا ہے۔
حماس کے سرکاری ویب سائٹ پر ایک بیان کے مطابق، مصر کی انٹیلی جینس کے سربراہ عباس کامل کو ایک ٹیلی فون کال میں، ہنیہ نے کہا کہ وہ "مصر کے کردار کو سراہتے ہیں جو قطر اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات کی ثالثی کر رہا ہے۔ انہوں نے جنگ بندی کی تجو یز کے جائزے کے لیے گروپ کی نیک نیتی کو اجاگر کیا۔"
برطانیہ کے مطابق، ثالثوں نے جنگ بندی کے ایک معاہدے کی تجویز پیش کی ہے جس کے تحت 40 دن کے لیے لڑائی روک دی جائے گی اور بہت سے مزید فلسطینی قیدیوں کے بدلے درجنوں یرغمالوں کا تبادلہ ہو گا۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے بدھ کو اسرائیل کا دورہ کرتے ہوئے عسکریت پسند تحریک پر جنگ بندی کی تجویز قبول کرنے پر زور دیا۔
بلنکن نے کہا، "حماس کو ہاں کہنے کی ضرورت ہے اور اس پر عمل کرنے کی ضرورت ہے۔"
بلنکن نے زور دیتے ہوئے کہا کہ "اگر حماس کو واقعی فلسطینی عوام کی پرواہ کا دعویٰ ہے اور ان کے مصائب کا فوری خاتمہ دیکھنا چاہتی ہے، تو اسے یہ معاہدہ کرنا چاہیے"۔
مذاکرات کا نتیجہ کیوں غیر یقینی رہا؟
مذاکرات کا نتیجہ رہا کیے جانے والے یرغمالوں کی تعداد اور کسی معاہدے کے مقصد پر باقی رہ جانے والے گہرے اختلافات کی وجہ سے انتہائی غیر یقینی رہا ہے۔
حماس کے سینئر عہدیدار سہیل الہندی نے کہا حماس کا مقصد، "اس جنگ کا خاتمہ" ہے، اور یہ مقصد اسرائیل کے وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کے بیان کردہ موقف سے متصادم ہے، جنہوں نے اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ فوج جنگ بندی کے خاتمے کے بعد حماس کے خلاف جنگ جاری رکھے گی۔
اسی دوران اسرائیلی حکومت کی ترجمان رکیلا کرامسن نے جمعرات کو صحافیوں کو بتایا کہ کسی بھی معاہدے کی راہ میں صرف ایک رکاوٹ ہے،"وہ حماس ہے۔"
انہوں نے کہا کہ حماس صرف اپنی شرائط کو سخت کرر ہی ہے اور خود کو غیر معقول مطالبات میں جکڑ لیتی ہے۔
کیا کوئی نئی امید ہے؟
حالیہ دنوں میں حماس کے دوسرے عہدیداروں نے اپنے تبصروں میں کہا تھا کہ جنگ بندی کی تجویز پر گروپ کا موقف سر دست "منفی" ہے۔
لیکن جمعرات کو اپنی ٹیلی فون کال میں، ہنیہ نے تصدیق کی کہ گروپ کا وفد اس وقت جاری مذاکرات کو مکمل کرنے کے لیے جلد از جلد مصر واپس جائے گا۔
ہنیہ نے کہا کہ ان مذاکرات کا مقصد " کوئی ایسا معاہدہ طے کرنا ہے جو ہمارے لوگوں کے مطالبات پورا کرے اور جارحیت کو روکے"۔
مصر کے سرکاری میڈیا القاہرہ نیوز نے جمعرات کو ایک اعلیٰ سطحی مصری ذریعے کے حوالے سے بتایا کہ حماس کا ایک وفد جنگ بندی کے مذاکرات جاری رکھنے کے لیے اگلے دو روز میں قاہرہ پہنچے گا۔
غزہ جنگ کا آغاز سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیل پر حماس کے حملے سے ہوا جس کے نتیجے میں 1,170 افراد ہلاک ہوئے، جن میں زیادہ تر عام شہری تھے۔
اسرائیل کا اندازہ ہے کہ عسکریت پسندوں کے حملے کے دوران پکڑے گئے باقی ماندہ 129 یرغمال غزہ میں ہی موجود ہیں، لیکن فوج کا کہنا ہے کہ ان میں سے 34 ہلاک ہو چکے ہیں۔
کرامسن نے کہا، "حماس کی قید کے سات ماہ میں، ہمیں ان کے حالات کے بارے میں کبھی بھی مطلع نہیں کیا گیا۔"
حماس کے زیر انتظام علاقے میں وزارت صحت کے مطابق، اسرائیل کی جوابی کارروائی میں حماس کو تباہ کرنے کے عزم کے ساتھ، غزہ میں کم از کم 34,596 افراد ہلاک ہو چکے ہیں، جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیا ہے۔
فورم