رسائی کے لنکس

اسحاق ڈار کا دورۂ چین: 'بیجنگ کو اپنے شہریوں کے تحفظ کی فکر ہے'


 اسحاق ڈار نے اپنے دورۂ چین کے دوران چینی وزیرِ خارجہ اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
اسحاق ڈار نے اپنے دورۂ چین کے دوران چینی وزیرِ خارجہ اور دیگر حکام سے ملاقاتیں کی تھیں۔
  • وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار چین کے دورے کے بعد پاکستان واپس پہنچے ہیں۔
  • ماہرین چینی تنصیبات پر حملوں کے تناظر میں وزیرِ خارجہ کے دورے کو اہم قرار دے رہے ہیں۔
  • وزیرِ خارجہ کے دورے میں سرمایہ کاری، تجارت اور سی پیک سمیت مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی: سفارت کار ثناء اللہ
  • دورۂ بیجنگ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے سفارتی سرگرمیاں تیز کی ہیں: تجزیہ کار فضل الرحمٰن

اسلام آباد -- پاکستان کے نائب وزیرِ اعظم اور وزیرِ خارجہ اسحاق ڈار اپنا تین روزہ دورہ چین مکمل کر کے پاکستان واپس پہنچ گئے ہیں۔ سی پیک منصوبوں اور حال ہی میں چینی انجینئرز پر ہونے والے حملوں کے بعد اسحاق ڈار کے دورۂ چین کو اہمیت کا حامل سمجھا جا رہا ہے۔

ان ملاقاتوں اور دونوں ملکوں کے درمیان ’اسٹریٹجک ڈائیلاگ‘ کے پانچویں دور کے احتتام پر دو طرفہ تعلقات اور مالی تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا گیا ہے۔

مبصرین اسحاق ڈار کے دورۂ بیجنگ کو خطے میں بدلتی صورتِ حال اور نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان کی خارجہ پالیسی کے تناظر میں اہم قرار دیتے ہیں۔

تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد اعلی سطح کا دورہ بیجنگ اور اسلام آباد کے دوطرفہ تعلقات کو نئی سمت پر ڈالنے میں مددگار ہو گا اور یہ دورہ آنے والے دنوں میں سربراہی دورے کی راہ بھی ہموار کرے گا۔

'اسلام آباد بیجنگ سے دُور نہیں جا رہا'

سابق سفارت کار ثناء اللہ کہتے ہیں کہ وزیرِ خارجہ کے دورے میں سرمایہ کاری، تجارت اور سی پیک سمیت مختلف موضوعات پر بات چیت ہوئی۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ثناء اللہ کا کہنا تھا کہ پاکستان نے یقین دہانی کروائی ہو گی کہ خارجہ پالیسی میں کسی تبدیلی کے نتیجے میں اسلام آباد بیجنگ سے دور نہیں جارہا ہے۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ وزیر خارجہ کا یہ دورہ جہاں اسٹریٹجک ڈائیلاگ کے سلسلے میں تھا وہیں اس میں شہباز شریف کے آئندہ ماہ دورۂ بیجنگ کے ایجنڈے کو بھی حتمی شکل دی گئی۔

تھنک ٹینک چائنا کونسل پاکستان کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر ڈاکٹر فضل الرحمٰن کہتے ہیں کہ دورۂ بیجنگ اس وجہ سے بھی اہم ہے کہ نئی حکومت کے قیام کے بعد پاکستان نے سفارتی سرگرمیاں تیز کی ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اسٹریٹجک ڈائیلاگ میں علاقائی صورتِ حال کا بھی جائزہ لیا جاتا ہے جس میں امریکہ کے ساتھ پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی سے متعلق شراکت داری پر بھی بات ہوئی ہو گی۔

انہوں نے کہا کہ وزیرِ خارجہ کے دورے میں اقتصادی تعاون کو بڑھانے، سی پیک کے دوسرے مرحلے اور وزیرِ اعظم کے دورۂ چین کے حوالے سے امور زیر بحث آئے ہیں۔

چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے مشترکہ حکمتِ عملی پر اتفاق

پاکستان کے وزیرِ خارجہ کا یہ دورہ ایسے وقت میں ہوا ہے جب حالیہ عرصے میں ملک میں چینی شہریوں اور تنصیبات پر حملوں میں اضافہ ہوا ہے۔

حال ہی میں پاکستان میں چین کے انجینئروں کے قافلے پر خود کش حملے میں پانچ انجینئرز ہلاک ہوئے تھے۔ یہ انجینئرز داسو میں پن بجلی کے منصوبے پر کام کر رہے تھے۔

پاکستانی ہم منصب کے ہمراہ میڈیا سے بات کرتے ہوئے چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ پاکستان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ انجینئروں پر حملے میں ملوث عناصر کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کی ہر ممکن کوشش کرے گا۔

دونوں ملکوں نے دہشت گردی کے خلاف تعاون بڑھانے پر بھی اتفاق کیا ہے۔

سابق سفارت کار ثناء اللہ کہتے ہیں کہ چین کو پاکستان میں کام کرنے والے اپنے شہریوں کی حفاظت پر خاصی تشویش ہے اور مشترکہ اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ چینی شہریوں کی حفاظت کے لیے مشترکہ اقدامات اُٹھائے جائیں گے۔

ان کے بقول چین شہریوں اور جاری منصوبوں کے تحفظ کے حوالے سے پوری طرح مطمئن نہیں ہے اور اس وجہ سے وہ چاہتے ہیں کہ اپنی ایک سیکیورٹی ایجنسی کے قیام کے ذریعے حفاظت کی جائے۔

 سی پیک کے 10 سال: پاکستان کو کیا ملا؟
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:07 0:00

تاہم ثناء اللہ کہتے ہیں کہ پاکستان چین کو اپنی سیکیورٹی ایجنسی بنانے کی اجازت اس لیے نہیں دے رہا کہ ماضی میں امریکہ کی بلیک واٹر سیکیورٹی ایجنسی کو کام کرنے کی اجازت دینے کا تجربہ بہت برا رہا تھا۔

انہوں نے کہا کہ اب یہ بات ہو رہی ہے کہ پاکستان اور چین کے سیکیورٹی اہلکار مل کر چینی شہریوں کی حفاظت کریں اسی لیے اعلامیے میں مشترکہ کا لفظ استعمال کیا گیا ہے۔

ڈاکٹر فضل الرحمٰن نے کہا کہ اگر چہ پاکستان نے چینی شہریوں اور منصوبوں کی حفاظت کی یقین دہانی کروائی ہے تاہم اس کے باوجود ہر واقعے کی تحقیقات میں سیکیورٹی کی کوتاہی سامنے آتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ سیکیورٹی میں بہتری کے بغیر چین سے نئے منصوبوں کے لیے سرمایہ کاری کی توقع نہیں رکھنی چاہیے۔

'چین پاکستان کی معاشی ضروریات کو سمجھتا ہے'

پاکستان اور چین نے ’اسٹریٹجک ڈائیلاگ‘ اجلاس کے احتتام پر بزنس ٹو بزنس روابط کے پیشِ نظر مالی تعاون کو مزید بڑھانے پر اتفاق کیا ہے۔

پاکستان حالیہ عرصے میں مالی مشکلات کا شکار ہے اور رواں سال میں اسے 30 ارب ڈالر کے قرض کی ادائیگی کرنا ہے۔

ایسے میں پاکستان مشکل صورتِ حال میں اپنے دوست ممالک کی طرف دیکھ رہا ہے اور امکان کیا جا رہا ہے کہ وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ چین کے دوران مالی امداد پر بھی اتفاق کیا جائے گا۔

مبصرین کا کہنا ہے کہ چینی ماضی میں بھی پاکستان کو قرضوں کی ادائیگی اور زرِمبادلہ کے ذخائر مستحکم رکھنے میں مدد دیتا رہا ہے تاہم بیجنگ سے کسی بڑی مالی امداد کی توقع نہیں رکھی جا سکتی۔

ثناء اللہ کہتے ہیں کہ چین نے پاکستان کی نئی حکومت کو خوش آمدید کہا ہے اور اب دیکھتے ہیں کہ معاشی مشکلات کے شکار ملک کو وزیرِ اعظم شہباز شریف کے دورۂ بیجنگ میں کیا مالی امداد مہیا کی جاتی ہے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان کی معاشی حالت کو دیکھتے ہوئے بیجنگ کو ہماری ضروریات کا ادراک ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ چین مالی امداد کے بجائے سرمایہ کاری اور شراکت داری پر یقین رکھتا ہے اور اسی بنا پر چین نے افغان طالبان سے تعلقات بڑھانے کے باوجود امداد نہیں دی بلکہ افغانستان میں نئے منصوبوں پر کام کا آغاز کیا ہے۔

فضل الرحمٰن نے کہا کہ چین پچھلے عرصے میں بھی پاکستان کی قرضوں کی ادائیگی اور توسیع میں مدد کرتا رہا ہے۔

تاہم وہ کہتے ہیں کہ کسی نئی سرمایہ کاری یا بڑے منصوبے کے لیے ملک میں سیاسی استحکام ضروری ہو گا۔

وزیر خارجہ اسحاق ڈار نے چینی وزیر خارجہ وانگ یی کے ساتھ پریس کانفرنس میں کہا کہ چین سے سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان کی اعلیٰ ترجیح پر زور دیا ہے۔ سرمایہ کاری کے حوالے سے جن ترجیحی شعبوں کی نشاندہی کی گئی ان میں زراعت، آئی ٹی، کان کنی، معدنیات اور قابل تجدید توانائی شامل ہیں۔

اس کے علاوہ خنجراب بارڈر کراسنگ کے ذریعے رابطے اور ویزا نظام آسان کرنے پر غور کیا گیا۔

چینی وزیرِ خارجہ نے کہا کہ چین پاکستان کے ساتھ تعلقات کو خصوصی اہمیت دیتا ہے۔

فورم

XS
SM
MD
LG