|
امل کلونی ان قانونی ماہرین میں سے ایک ہیں جنہوں نے عالمی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر سے یہ سفارش کی تھی کہ وہ عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم بنجمن نیتن یاہو اور عسکریت پسند حماس گروپ کے رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کریں۔
انسانی حقوق کی وکیل اور اداکار جارج کلونی کی اہلیہ نے پیر کے روز اپنی تنظم کلونی فاؤنڈیشن فار جسٹس کی ویب سائٹ پر شائع کیے گئے ایک خط میں لکھا ہے کہ انہوں نے اور بین الاقوامی قانون کے کئی دیگر ماہرین نے متفقہ طور پر بین الاقوامی فوجداری عدالت کے چیف پراسیکیوٹر کریم خان سے اسرائیلی اور حماس کے رہنماؤں کی گرفتاری کے وارنٹ حاصل کرنے کی سفارش کی تھی۔
چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے پیر کے روز عدالت سے اسرائیلی وزیراعظم، وزیر دفاع اور حماس کے تین لیڈروں کے گرفتاری کے وارنٹ جاری کرنے کی استدعا کرتے ہوئے الزام لگایا کہ ان کی جانب سے کیے جانے والے اقدامات جنگی جرائم کے زمرے میں آتے ہیں۔
کلونی اپنے خط میں لکھا ہے کہ میں نے اس پینل میں خدمات انجام دیں ہیں کیونکہ میں قانون کی حکمرانی اور شہریوں کی زندگیوں کے تحفظ پر یقین رکھتی ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ جنگ میں شہریوں کو تحفظ دینے والا قانون ایک صدی سے زیادہ عرصہ پہلے تیار کیا گیا تھا اور کسی بھی تنازع کی وجوہات سے قطع نظر اس کا اطلاق دنیا کے ہر ملک میں ہوتا ہے۔
کلونی نے خط میں آگے چل کر لکھا ہے کہ اس پینل میں بین الاقوامی انسانی قانون اور بین الاقوامی فوجداری قانون کے ماہرین شامل تھے اور پینل کے دو ارکان دی ہیگ میں فوجداری ٹربیونلز کے سابق جج تھے، جہاں بین الاقوامی عدالت انصاف قائم ہے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ وارنٹ گرفتاری سے متعلق پینل کا فیصلہ متفقہ تھا۔
پینل نے پیر کے روز فنانشل ٹائمز میں اپنی سفارشات کے بارے میں ایک مضمون بھی شائع کیا ہے۔
بین الاقوامی فوجداری عدالت کے تین ججوں کا ایک پینل یہ فیصلہ کرے گا کہ آیا گرفتاری کے وارنٹ جاری کیے جائیں اور مقدمے کو چلایا جائے۔ ایسا کوئی فیصلہ کرنے میں ججوں کو عام طور پر تقریباً دو ماہ لگتے ہیں۔
پیر کے روز اپنے ایک اعلان میں چیف پراسیکیوٹر کریم خان نے وزیراعظم نیتن یاہو، وزیر دفاع یوو گیلنٹ، اور حماس کے تین لیڈروں یحیٰ سنوار، محمد ضعیف اور اسماعیل ہنہ پر غزہ کی پٹی میں اور اسرائیل کی سرزمین پر جنگی جرائم اور انسانیت کے خلاف جرائم کے اتکاب کا الزام لگایا تھا۔
نیتن یاہو اور دیگر اسرائیلی رہنماؤں نے اس اقدام کو شرمناک اور صہونیت دشمنی قرار دے کر اس کی مذمت کی۔ جب کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے بھی آئی سی سی کے پراسیکیوٹر پر تنقید کرتے ہوئے حماس کے خلاف اسرائیل کی جانب سے اپنے دفاع کے حق کی حمایت کی۔
اسرائیل عدالت کا رکن نہیں ہے، اس لیے اگر عدالت گرفتاری کے وارنٹ جاری کر بھی دیتی ہے تو بھی نیتن یاہو اور گیلنٹ کو فوری طور پر گرفتار ہونے اور مقدمے کا سامنا کرنے کا خطرہ نہیں ہے۔ لیکن گرفتار کیے جانے کے خطرے کے پیش نظر اسرائیلی رہنماؤں کے لیے بیرون ملک سفر کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔
حماس کے لیڈروں کے لیے خطرہ اور بھی زیادہ ہے کیونکہ مغرب پہلے ہی سے حماس کو ایک دہشت گرد گروپ کے طور پر دیکھتا ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان جنگ پچھلے سال 7 اکتوبر کو اس وقت شروع ہوئی تھی جب غزہ سے بڑی تعداد میں عسکریت پسندوں نے اسرائیل میں داخل ہو کر تقریباً 1200 افراد کو ہلاک کر دیا تھا اور جاتے ہوئے ڈھائی سو افراد کو یرغمال بنا کر اپنے ساتھ لے گئے تھے۔ ہلاک ہونے اور یرغمال بنائے جانے والوں میں اکثریت عام شہریوں کی تھی۔
اس کے بعد سے اسرائیل غزہ کی پٹی میں حماس کو مٹانے کے لیے سخت فوجی کارروائیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ جس کے نتیجے میں غزہ میں فلسطینی وزارت صحت کے مطابق اب تک 35 ہزار سے زیادہ فلسطینی مارے جا چکے ہیں، جن میں خواتین اور بچوں کی اکثریت ہے۔ فلسطینی وزارت صحت یہ نہیں بتاتی کہ ہلاک ہونے والوں میں جنگجو کتنے تھے۔
اقوام متحدہ کے حکام کا کہنا ہے کہ اسرائیل حماس جنگ نے غزہ کی پٹی میں ایک انسانی بحران کو جنم دیا ہے جس کے نتیجے میں 80 فی صد فلسطینی بے گھر ہو چکے ہیں، جب کہ لاکھوں افراد کے پاس کھانے کو کچھ نہیں رہا اور وہ فاقہ کشی کے دہانے پر پہنچنے والے ہیں۔
(اس آرٹیکل کے لیے تفصیلات اے پی سے حاصل کی گئیں ہیں)
فورم