رسائی کے لنکس

بھارت میں بٹر چکن کے معاملے پر قانونی جنگ تیز، سامنے آنے والے نئے ثبوت کیا ہیں؟


  • بھارت میں دو ریستوران بٹر چکن کی ایجاد کے معاملے پر قانونی جنگ لڑ رہے ہیں۔
  • موتی محل ریستوران کا دعویٰ ہے کہ یہ ڈش 1930 کی دہائی میں انہوں نے ایجاد کی۔
  • دریا گنج کا کہنا ہے کہ بٹر چکن کے ایجاد کی کہانی سچ نہیں ہے۔'' اس کا مقصد عدالت کو گمراہ کرنا ہے۔

ویب ڈیسک — بھارت میں مشہور ڈش 'بٹر چکن' کی ایجاد کے معاملے پر جاری قانونی جنگ مزید تیز ہو گئی ہے اور اب اس کیس میں تصاویر اور ویڈیو کے نئے ثبوت عدالت میں پیش کر دیے گئے ہیں۔

بھارت کے دو ریستوران چین 'موتی محل' اور 'دریا گنج' کے درمیان دہلی ہائی کورٹ میں جنوری سے ایک کیس چل رہا ہے جس میں دونوں کا دعویٰ ہے کہ اس ڈش کو ایجاد کرنے کا کریڈٹ انہیں جاتا ہے۔

یہ معاملہ جب عدالت پہنچا تو اس نے نہ صرف سوشل میڈیا بلکہ مختلف ٹی وی چینلز اور ویب سائٹس کی بھی توجہ حاصل کی۔

خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کی رپورٹ کے مطابق موتی محل ریستوران چین کی جانب سے مقدمے میں کہا گیا ہے کہ بٹر چکن کی ڈش انہوں نے ایجاد کی اور انہیں اس کے موجد کے طور پر تسلیم کیا جائے۔

موتی محل کا مطالبہ ہے کہ اس کے حریف دریا گنج ریستوران کو اس دعوے سے روکا جائے کہ بٹر چکن ان کی ایجاد ہے۔

اس کے ساتھ ساتھ موتی محل کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ اسے پہنچنے والے نقصان کے ازالے کے لیے دو لاکھ 40 ہزار ڈالرز ادا کیے جائیں۔

بٹر چکن اور دال مکھنی کس کی ایجاد؟ معاملہ بھارتی عدالت تک پہنچ گیا
please wait

No media source currently available

0:00 0:03:48 0:00

موتی محل کا کہنا ہے کہ اس کے بانی کندن لال گجرال نے دہلی منتقل ہونے سے قبل 1930 کی دہائی میں اس ڈش کو پشاور میں بنایا تھا۔

لیکن دریا گنج نے 642 صفحات پر مشتمل اپنے جواب میں کہا ہے کہ "بٹر چکن کے ایجاد کی کہانی سچ نہیں ہے۔'' اس کا مقصد عدالت کو گمراہ کرنا ہے۔

دریا گنج کا کہنا ہے کہ اس کے بانی خاندان کے ایک آنجہانی رکن کندن لال جگی نے یہ ڈش اس وقت بنائی جب وہ دہلی میں ایک دوسری جگہ منتقل ہوئے۔

ان کا مؤقف ہے کہ پشاور سے آنے والے جگی کے دوست گجرال صرف مارکیٹنگ کو دیکھتے تھے۔

واضح رہے کہ گجرال کا انتقال 1997 جب کہ جگی کا انتقال 2018 میں ہو گیا تھا۔

'رائٹرز' کے مطابق دریا گنج کی جانب سے نان پبلک فائلنگ میں جو ثبوت پیش کیے گئے ہیں ان میں 1930 کی دہائی کی ایک بلیک اینڈ وائٹ تصویر ہے جس میں دو دوستوں کو پشاور میں دکھایا گیا ہے۔

اسی طرح 1949 کا ایک شراکت داری معاہدہ پیش کیا گیا ہے جب کہ جگی کا دہلی منتقل ہونے کے بعد کا بزنس کارڈ اور 2017 کی ایک ویڈیو ہے جس میں وہ ڈش کی ایجاد کے بارے میں بات کر رہے ہیں۔

دریا گنج کا اپنی فائلنگ میں کہنا تھا کہ دوستوں کی شراکت داری کی وجہ سے دونوں فریق یہ دعویٰ کر سکتے ہیں کہ ان کے آباؤ اجداد نے پکوان بنائے۔

انہوں نے اس تنازع کو "کاروباری دشمنی" قرار دیا۔

موتی محل نے اس معاملے پر تبصرے سے انکار کیا ہے۔ اب اس کیس کی اگلی سماعت 29 مئی کو ہو گی۔

اس قانونی جنگ میں عدالت کے سامنے جو نکتہ ہے وہ یہ ہے کہ بٹر چکن پہلی مرتبہ کہاں، کب اور کس نے بنایا؟ آیا اسے پشاور میں گجرال نے بنایا یا نئی دہلی میں جگی نے۔ یا پھر ان دونوں کو اس کا کریڈٹ دینا چاہیے۔

واضح رہے کہ موتی محل چین فرنچائز ماڈل پر کام کرتی ہے اور اس کے دنیا بھر میں 100 سے زیادہ آؤٹ لیٹس ہیں۔

اس کے بٹر چکن کی ڈشز کی نئی دہلی میں کم از کم قیمت آٹھ ڈالر ہے جب کہ نیو یارک میں یہ 23 ڈالر میں دستیاب ہے۔

اس کے برعکس دریا گنج کا آغاز 2019 میں ہوا تھا اور اس کی بٹر چکن کی قیمت ساڑھے سات ڈالر ہے۔ اس کے 10 آؤٹ لیٹس ہیں جن میں سے زیادہ تر نئی دہلی میں ہیں۔

موتی محل نے اپنے مقدمے میں یہ الزام بھی لگایا ہے کہ دریا گنج نے اپنے آؤٹ لیٹس میں موتی محل کی نقل کی ہے۔

لیکن دریا گنج نے ریستوران کے اندرونی حصوں کے ساتھ جواب جمع کرایا ہے جس کا جائزہ عدالت لے گی۔

دریا گنج کا دعویٰ ہے کہ موتی محل نے اس کے فرش کے ٹائلوں کا ڈیزائل نقل کیا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'رائٹرز' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG