|
دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت بھارت میں، جہاں عام انتخابات اب اپنے اختتام کی طرف بڑھ رہے ہیں، مصنوعی ذہانت کی مدد سے بنائی گئی جعلی ویڈیوز، آڈیوز اور سوشل میڈیا کے تمام ذرائع کا بڑے پیمانے پر استعمال کیا جا رہا ہے، سیاسی پارٹیوں اور لیڈروں کے لیے اس کا مقصد زیادہ سے زیادہ ووٹروں تک پہنچنا اور انہیں اپنی جانب راغب کرنا ہے۔
اگر بھارت کی انتخابی صورت حال پر نظر ڈالی جائے تو یہ ظاہر ہوتا ہے کہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے تیار کردہ تصویروں، آڈیوز اور ویڈیوز نے سیاست دانوں اور امیدواروں کو اپنے ہزاروں ووٹروں کے ساتھ براہ راست رابطہ قائم کرنے میں مدد دی ہے۔ کئی سیاسی جماعتوں نے اپنی انتخابی مہم کو زیادہ پر اثر بنانے کے لیے، پارٹی کے مقبول اور آنجہانی لیڈروں کو ویڈیوز میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی مدد سے دوبارہ زندہ کر کے ووٹروں کو متوجہ کرنے کی کوشش کی۔ حتی ٰکہ بالی وڈ کے دو معروف اسٹاز کی فیک ویڈیوز وائرل ہوئیں جن میں وہ وزیراعظم نریندر مودی پر تنقید کرتے ہوئے دکھائی دیے۔ تاہم اسٹارز کی جانب سے لا تعلقی کے اعلان کے بعد یہ ویڈیوز انٹرنیٹ سے ہٹا دی گئیں۔
دیویندر سنگھ جدون ڈیپ فیک ویڈیوز بنانے کے ماہر ہونے کے دعویدار ہیں۔ انہوں نے حالیہ مہینوں میں سیاسی جماعتوں کے لیے مصنوعی ذہانت پر مبنی مواد تیار کیا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ بھارت میں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کے اتنے بڑے پیمانے پر استعمال کا یہ پہلا موقع ہے۔
مصنوعی ذہانت سے تیار کردہ انتخابی مواد ایک ایسے ملک میں پھیلایا گیا ہے جہاں 80 کروڑ سے زیادہ لوکوں کی انٹرنیٹ پر رسائی ہے۔ یہ چیز ووٹر کو متاثر کرنے میں کیا کردار ادا کرسکتی ہے؟ اس کا جواب میں نئی دہلی میں قائم ایک ڈیجیٹل رائٹس گروپ ’انٹرنیٹ فریڈم فاؤنڈیشن‘ کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر پریتک واگھر نے کہا کہ اگر بھارت کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہاں پہلے ہی سے سیاسی جماعتیں اپنے مخصوص بیانیے اور گمراہ کن پیغامات کو آگے بڑھانے پر بہت زیادہ انحصار کرتی ہیں تو اس مصنوعی مواد سے اور کتنا فرق پڑ سکتا ہے، اس پر ایک سوالیہ نشان ہے۔
ایک ایسے ملک میں جہاں ہر پارلیمانی حلقے میں تقریباً 20 لاکھ ووٹر ہیں، وہاں جدون اور ان کی ٹیم نے مصنوعی ذہانت کی مدد سے ایسے کردار تخلیق کیے ہیں جو ووٹروں کو ان کا نام لے کر مخاطب کرتے ہیں اور ان کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ذاتی نوعیت کے پیغامات پہنچاتے ہیں۔ اس کے علاوہ آرٹیفیشل انٹیلی جینس پر کام کرنے والے بوٹس ہیں جو سیاسی رہنماؤں کی آواز میں ووٹروں کو ان کے ٹیلی فون پر کال کرتے ہیں اور اپنے حق میں ووٹ ڈالنے کی اہمیت کو اجاگر کرتے ہیں۔
جدون کہتے ہیں کہ ٹیکنالوجی کی ترقی اور ارزانی نے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا بڑے پیمانے پر استعمال ممکن بنا دیا ہے۔ چار سال پہلے تک ہمیں آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی ایک منٹ کی ویڈیو بنانے میں کئی دن لگ جاتے تھے۔ اب ایک عام شخص جسے ڈیجیٹل کوڈنگ کی اے بی سی کا بھی علم نہ ہو، وہ بڑی آسانی سے ایک شخص کی تصویر بنا کر اس میں آواز ڈال سکتا ہے۔
اانجہانی رہنماؤں کو مصنوعی ذہانت کی ویڈیوز میں زندہ کرنے کی ایک نمایاں مثال جنوبی ریاست تامل ناڈو کی ہے۔ اس ریاست میں اب ووٹنگ ختم ہو چکی ہے۔ وہاں کے ایک مقبول لیڈر میتھول کروناندی تھے، جن کا 2018 میں انتقال ہو گیا تھا۔ ان کے بیٹے ایم کے اسٹالن ریاست کے وزیراعلیٰ ہیں۔ ان کی انتخابی مہم کے لیے ان کے والد کروناندی کو مصنوعی ذہانت کی ویڈیوز میں دوبارہ زندہ کیا گیا ہے، وہ اپنا مخصوص سیاہ چشمہ پہنے، اپنے بیٹے کے حق میں کنویسنگ کرتے ہوئے نظر آئے۔
بھارت میں الیکشن کے دوران جھوٹی خبریں پھیلانے کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کا استعمال بدستور ایک بڑا چیلنج بنی رہی۔ بالی وڈ اسٹارز کی جعلی ویڈیوز کا ذکر تو ہم کر ہی چکے ہیں جن میں نریندرمودی کو تنقید کا نشانہ بنایا گیا تھا۔ اسی طرح کی ایک فیک ویڈیو حزب اختلاف کی بڑی پارٹی کانگریس کے رہنما راہول گاندھی کی تیزی سے وائرل ہوئی جس میں وہ یہ کہتے ہوئے نظر آئے کہ انہوں نے اپنی پارٹی سے استعفیٰ دے دیا ہے۔
جدون کہتے ہیں کہ ایسی فیک ویڈیوز کے لیے عموماً کیا یہ جاتا ہے کہ ان کا چہرہ کسی اور کردار پر چسپاں کر دیا جاتا ہے جس کا مقصد ان کی ساکھ کو نقصان پہنچانا ہوتا ہے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان کی تصویر کے ساتھ ایسے بیانات لگا دیے جاتے ہیں، جو انہوں نے کبھی دیے ہی نہیں ہوتے۔ ایک اور طریقہ یہ ہے کہ ان کی آواز کی نقل بنا کر ایسا کچھ کہا جاتا ہے جس سے انہیں سیاسی نقصان پہنچ سکے۔
آرٹیفیشل انٹیلی جینس سے تیار کی گئی ایک دلچسپ ویڈیو ریاست تامل ناڈو میں پھیلائی گئی، جس میں نریندر مودی تامل ناڈو میں مقبول ایک گانا گاتے ہوئے نظر آئے۔ اس ویڈیو کا مقصد تامل ووٹر کو بھارتیہ جنتا پارٹی کی حمایت پر مائل کرنا تھا۔
بھارت کے الیکشن کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو غلط معلومات پھیلانے کے لیے مصنوعی ذہانت کے استعمال سے خبردار کیا ہے لیکن اس پر کنٹرول کے لیے بہت کم ضابطے موجود ہیں۔
بھارت کے انتخابات میں ڈیجیٹل دنیا سے شامل ہونے والی واحد چیز آرٹیفیشل انٹیلی جینس ہی نہیں ہے بلکہ سیاسی جماعتوں اور انتخابی امیداروں نے یوٹیوب اور انسٹا گرام کا بھی بھرپور استعمال کیا ہے۔
بھارتیہ جنتا پارٹی سوشل میڈیا کی طاقت سے بخوبی آگاہ ہے اور وہ اس میڈیم کے استعمال میں دوسری پارٹیوں سے آگے رہی ہے۔ مارچ میں الیکشن شروع ہونے سے صرف پانچ ہفتے قبل وزیراعظم مودی نے ملک کے پہلے تخلیقی ایوارڈز کی تقریب میں سوشل میڈیا کی 24 معروف شخصیات کو ایوارڈ دیے تھے جس کا مقصد نئے بھارت کے پراعتماد اور پرعزم کہانی کاروں کی حوصلہ افزائی بتایا گیا تھا۔ لیکن ناقدین نے ان ایوارڈز کو حکمران جماعت کی انتخابی مہم کا ساتھ دینے کی ایک کوشش کے طور پر دیکھا۔
واگھر کہتے ہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا فائدہ یہ ہے کہ سیاست دان اپناپیغام ان لوگوں تک اسی انداز میں پہنچا سکتے ہیں، جیسا وہ چاہتے ہیں اور وہ بھی ایک قریبی تعلق کے ساتھ۔ لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس حربے کو مؤثر طور پر استعمال کرنا مشکل ہوتا جائے گا۔
(وی او اے نیوز)
فورم