|
اسلام آباد -- "پیمرا کی یہ پابندی صرف میڈیا اور آزادیٔ اظہار رائے پر پابندی نہیں ہے بلکہ اس طرح کے حکم نے تو عدلیہ کی آواز بھی بند کر دی ہے۔ یہ دو طاقت وروں کی لڑائی ہے جس میں میڈیا مارا جا رہا ہے۔"
یہ الفاظ ہیں سپریم کورٹ پریس ایسویسی ایشن کے صدر میاں عقیل افضل کے جو پچھلے 10 سال سے عدالتی امور کی رپورٹنگ کر رہے ہیں۔
سپریم کورٹ اور اسلام آباد ہائی کورٹ پریس ایسوسی ایشنز نے عدالتی کارروائی کی رپورٹنگ پر پابندی کے حوالے سے پیمرا کا نوٹی فکیشن اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیلنج کردیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پیمرا کے نوٹی فکیشن میں غلط تشریح کی گئی ہے۔ لہذا اس نوٹی فکیشن کو غیر آئینی قرار دے کر کالعدم قرار دیا جائے۔
پیمرا نے دو روز قبل جاری کیے گئے ایک حکم نامے میں تمام ٹی وی چینلز کو عدالتی رپورٹنگ سے روک دیا تھا۔
پیمرا نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ کسی بھی کیس کا فیصلہ سامنے آنے کے بعد صرف تحریری فیصلہ رپورٹ کیا جا سکتا ہے۔ لیکن عدالت میں ہونے والی کارروائی اور ریمارکس کو ٹکرز کی صورت میں رپورٹ نہیں کیا جا سکتا۔
پیمرا کے اس حکم نامے کے بعد بدھ کو عدالت میں ہونے والی کارروائی کو جب چینلز نے رپورٹ کیا تو جمعرات کی صبح بیش تر ٹی وی چینلز کو شوکاز نوٹسز جاری کر دیے گئے۔
'میڈیا کو ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے'
عقیل افضل کا کہنا تھا کہ میڈیا کو ہمیشہ سافٹ ٹارگٹ سمجھا جاتا ہے۔ اس وجہ سے دونوں طاقت ور ایک دوسرے کو کچھ نہ کہہ سکے اور پابندیاں میڈیا پر لگا دی گئیں۔
اُن کے بقول عدالتی رپورٹنگ کے حوالے سے نہ تو ججز، نہ وکلا اور نہ ہی کسی اور نے شکایت کی اور پیمرا نے ازخود یہ پابندیاں لگا دیں۔
عقیل افضل کہتے ہیں کہ اگر کسی کیس میں غلط رپورٹنگ کے حوالے سے شکایات ہوں تو پھر پابندی لگ سکتی ہے۔ لیکن پیمرا نے کسی غلطی کے بغیر پابندی لگا دی جو بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
انہوں نے کہا کہ قانون کے مطابق صرف ایسے عناصر کا پیغام پھیلانے پر پابندی ہے جو ریاست کے مخالف ہوں۔ عدالتی رپورٹنگ میں ایسا کچھ نہیں ہے۔
اُن کے بقول کورٹ رپورٹنگ تو بہت زیادہ احتیاط کے ساتھ کی جاتی ہے جس میں ججز کی آبزرویشن میں رپورٹر ایک لفظ تبدیل نہیں کرسکتا۔ جیسا کورٹ میں کہا جاتا ہے ویسا ہی رپورٹ کیا جاتا ہے۔
نوٹی فکیشن کے خلاف دائر کی گئی درخواست میں سیکریٹری اطلاعات اور چیئرمین پیمرا کو فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ پیمرا کا نوٹی فکیشن آئین کے آرٹیکل 19 اور 19 اے کی خلاف ورزی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کی پیمرا کے نوٹی فکیشن میں غلط تشریح کی گئی۔ لہذا پیمرا کا نوٹی فکیشن غیر آئینی قرار دے کر کالعدم کیا جائے۔
'یہ میڈیا پر نہیں بلکہ عدلیہ پر بھی پابندی کے مترادف ہے'
اس کیس میں وکیل عمر اعجاز گیلانی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ پابندی صرف میڈیا پر نہیں بلکہ عدلیہ پر بھی ہے۔
اُن کے بقول کوئی بھی وکیل گمنام رہ کر کام نہیں کرنا چاہتا اور اس کی خواہش ہوتی ہے کہ اس کی عدالت میں کی گئی بات کو رپورٹ کیا جائے۔
وہ کہتے ہیں کہ کسی بھی وکیل کے دلائل اور قانونی نکات سامنے آنے پر شفافیت بڑھ جاتی ہے۔ انہوں نے امید ظاہر کی کہ پیمرا کے اس نوٹی فکیشن کے خلاف جلد وکلا بھی میدان میں ہوں گے اور میڈیا کا ساتھ دیں گے۔
عقیل افضل کا کہنا تھا کہ پیمرا کے پاس میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کا اختیار ہے۔ لیکن کسی قسم کی پابندی لگانے کا کوئی اختیار نہیں ہے۔ دو روز قبل ہی پیمرا نے نوٹی فکیشن جاری کیا اور اس کے بعد آج شوکاز نوٹس بھی آ گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ اس نوٹی فکیشن کے بارے میں یہ بھی شک ظاہر کیا جا رہا ہے کہ حالیہ دنوں میں ایک کیس میں حساس اداروں کے بارے میں ججز کی آبزرویشن سامنے آئیں۔
رپورٹر کسی بھی جج کی آبزرویشن کو فلٹر نہیں کرتا اور جو بھی جج صاحبان کہتے ہیں انہیں رپورٹ کردیا جاتا ہے۔ لہذا ان آبزرویشنز کے بعد بعض طاقت ور حلقوں کی طرف سے میڈیا پر یہ پابندی عائد کردی گئی ہے۔ لیکن یہ پابندی صرف میڈیا پر نہیں بلکہ عدلیہ پر یہ پابندی لگائی گئی ہے کہ ان کے بارے میں کوئی معلومات عام لوگوں تک نہیں پہنچ سکیں گی۔
صحافیوں کی برطرفیوں کا خدشہ
اس صورت حال میں صحافیوں کو اپنی ملازمتوں سے محرومی کا خدشہ بھی پریشان کررہا ہے۔
اس بارے میں ہائی کورٹ پریس ایسویسی ایشن کے صدر فیاض محمود نے کہا کہ بالکل یہ خطرہ ہمیں درپیش ہے کیوں کہ کورٹ رپورٹنگ ایک خاص بیٹ ہوتی ہے جس میں کئی سال کام کرنے کے بعد ہی عدالتی معاملات پر کسی صحافی کو دسترس حاصل ہوسکتی ہے۔
اُن کے بقول عام بیٹس پر کام کرنے والا صحافی عدالتی امور پر فوری طور پر رپورٹ نہیں کر سکتا کیوں کہ یہ حساس معاملات ہوتے ہیں۔ ایسے میں اگر پیمرا کی طرف سے رپورٹنگ پر ہی پابندی لگا دی جائے گی تو کورٹ رپورٹرز کو اپنی جگہ بنانے میں مشکلات ہوں گی اور درجنوں صحافی بے روزگار ہو سکتے ہیں۔
فیاض محمود کے بقول عوام کا حق ہے کہ وہ معلومات تک رسائی رکھیں۔ اس صورتِ حال میں صرف صحافی اور عوام متاثر نہیں ہو رہے بلکہ عدلیہ بھی شدید متاثر ہو رہی ہے۔
فیاض محمود کہتے ہیں کہ حکومت کے لیے سوشل میڈیا کو روکنا ممکن نہیں ہے۔ ایک خبر جو آج سوشل میڈیا کے ذریعے پوری دنیا تک پہنچ گئی ہے پیمرا اسی خبر کو ایک ماہ بعد تحریری آرڈر آنے کی صورت میں رپورٹ کرنے کا کہہ رہا ہے۔
اُن کے بقول یہ ممکن ہی نہیں ہے اور عدالتی زبان میں کہا جاسکتا ہے کہ یہ نوٹی فکیشن ایک پیشی کی مار ہے اور عدالت ایسے غیرآئینی قرار دے گی۔
پاکستان میں حالیہ عرصہ میں میڈیا پر پابندیوں میں اضافہ ہوا ہے اور ٹی وی چینلز کے ساتھ ساتھ سوشل میڈیا پر بھی پابندیاں عائد کی جارہی ہیں۔
کچھ روز قبل اسپیکر قومی اسمبلی نے پارلیمنٹ ہاؤس میں یوٹیوبرز کے داخلے پر مکمل پابندی عائد کردی تھی۔
گیٹ نمبر ایک جہاں پر ارکانِ قومی اسمبلی و سینیٹرز سے میڈیا کے نمائندے کسی موضوع پر رائے لیتے تھے، یہاں بھی کیمرہ لانے پر پابندی عائد کردی گئی ہے۔
اس کے علاوہ پنجاب اسمبلی میں پاس ہونے والے ہتکِ عزت قانون کو بھی میڈیا پر پابندیوں سے تعبیر کیا جا رہا ہے جب کہ وفاق کی سطح پر سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنے کے لیے مزید قانون سازی کا بھی کہا جا رہا ہے۔
پاکستان کی مختلف صحافتی تنظیموں نے اس صورتِ حال پر اجتجاج کرنے کا بھی اعلان کیا ہے۔
پاکستان کے وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ کا کہنا ہے کہ حکومت سوشل میڈیا سے متعلق قانون سازی پر کام کر رہی ہے، انٹرنیٹ استعمال کرنے والوں کے رویے پر مزید پالیسی گائیڈ لائنز متعارف کرائی جائیں گی۔
ایک بیان میں وزیر قانون کا کہنا تھا کہ وہ اظہار رائے کے حامی ہیں، ڈیجیٹل رائٹس اور قابلِ اعتراض مواد کے معاملے میں جلد بہتری آئے گی۔
انہوں نے یہ بھی کہا تھا کہ سوشل میڈیا بندش کا مسئلہ صرف پاکستان میں نہیں، امریکا، کینیڈا اور آسٹریلیا میں بھی سوشل میڈیا کے مسائل موجود ہیں۔
فورم