|
اردو کی طنزیہ و مزاحیہ شاعری کے بادشاہ اکبر الہ آبادی نے کہا تھا:
پڑ جائیں مرے جسم پہ لاکھ آبلے اکبرؔ
پڑھ کر جو کوئی پھونک دے اپریل مئی جون
مئی رخصت ہونے والا ہے، جون کا مہینہ دستک دے رہا ہے اور اہلِ دہلی اکبر الہ آبادی کو یاد کر رہے ہیں۔
اس وقت دہلی ایک دہکتی ہوئی بھٹی بن گیا ہے جس کی وجہ سے ہر شخص آبلہ زدہ ہے۔ لیکن وہ شکایت کرے تو کس سے، فریاد کرے تو کس سے! کیوں کہ یہ معاملہ کسی انسان کے اختیار یا بس کا نہیں ہے بلکہ فطرت کے بدلے تیور ہیں اور فطرت سے کون لڑ سکتا ہے۔
ہم نے جب ایک دانشور سے جو کہ اہل زبان بھی ہیں، اس معاملے پر تبادلہ خیال کیا تو انھوں نے کہا کہ اس وقت سیاسی درجۂ حرارت بھی آسمان کو چھو رہا ہے اور موسمی درجہ حرارت بھی۔ سیاسی درجہ حرارت انسانوں کا پیدا کردہ ہے لہٰذا وہ چند روز میں نیچے آجائے گا۔ لیکن اگر موسمی درجہ حرارت نیچے نہیں آیا توکیا ہوگا؟
واضح رہے کہ ہماری رہائش جنوبی دہلی کے مسلم اکثریتی علاقے ’جامعہ نگر‘ میں ہے۔ یہیں پر مسلمانوں کی معروف یونیورسٹی ’جامعہ ملیہ اسلامیہ‘ واقع ہے اور اسی کی مناسبت سے اس پورے علاقے کا نام ’جامعہ نگر‘ ہے۔
یہ ایک گنجان آبادی والا علاقہ ہے۔ یہاں مسلمانوں کی آبادی تقریباً 100 فی صد ہے۔ ہر تعلیم یافتہ مسلمان اسی علاقے میں رہائش اختیار کرنے کو ترجیح دیتا ہے۔ جس کی وجہ سے یہاں ٹریفک کا زبردست مسئلہ رہتا ہے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس کے آغاز پر جہاں سے مولانا محمد علی جوہر روڈ شروع ہوتی ہے ٹریفک جام بھی شروع ہو جاتا ہے۔ بہت سے ٹیکسی اور آٹو ڈرائیور یہاں تک آنے سے کتراتے ہیں۔
ایک بار ہم کسی دوسری جگہ سے واپس آرہے تھے اور ہم نے ایک ٹیکسی ڈرائیور سے ’جامعہ‘ چلنے کو کہا تو اس نے بڑی سختی سے منع کر دیا۔ وجہ پوچھنے پر اس نے بڑا دلچسپ تبصرہ کیا۔ اس نے کہا کہ ’وہاں جام بہت لگتا ہے۔ اس کا نام ہی ’جامیہ‘ ہے، لہٰذا یہاں سے جا میاں‘۔
لیکن گرم لہر نے جامعہ کے علاقے کو اس مسئلے سے نجات دلا دی ہے۔ جب ہم اہلِ خانہ کے منع کرنے کے باوجود اپنی دفتری ذمے داری نبھانے کی خاطر شہر میں گھومنے نکلے تو ہمیں لگا کہ ہم دہلی میں نہیں ہیں بلکہ کسی اور چھوٹے شہر میں آگئے ہیں۔ کسی ایسے شہر میں جو آسیب زدہ ہے۔ جہاں لوگ گھروں سے نکلتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
جامعہ نگر کا علاقہ بھی پہچانا نہیں جارہا تھا۔ بٹلہ ہاؤس، ذاکر نگر اور جوگا بائی کے وہ بھرے پُرے بازار بھی سنسان نظر آئے جہاں عام دنوں میں کھوے سے کھوا چھلتا ہے۔ بہت کم دکانیں کھلی نظر آئیں اور دکان دار پسینہ پونچھتے دکھائی دیے۔
جامعہ ملیہ اسلامیہ کے کیمپس میں پہنچے تو نہ آدم نہ آدم زاد، نہ سڑکوں پر ٹریفک کا اژدہام، نہ گاڑیوں سے نکلنے والا دھواں، نہ ہارن کی آوازیں۔ دوپہر بعد کا وقت لیکن ایسا محسوس ہوا کہ اہلِ جامعہ نے کوئی اور دنیا بسا لی ہے۔
ہمارے ایک دوست کا تبصرہ آپ بھی سن لیں۔ ان سے خیریت پوچھی تو کہنے لگے کہ ایک کام سے باہر نکلا تھا۔ اچانک لُو کا ایک تھپیڑا آیا تو یوں لگا جیسے کسی نے چہرے پر چپاتی سینک دی ہو۔
ہمارے ایک دوسرے دوست اور ریڈیو ایف ایم جامعہ کے پروڈیوسر ڈاکٹر شکیل اختر تقریباً تین چار کلومیٹر کا راستہ طے کرکے شاہین باغ سے جامعہ ملیہ اسلامیہ کے شعبہ ماس کمیونی کیشن میں اپنے دفتر پہنچے تھے۔
انھوں نے بتایا کہ درختوں کی ٹھنڈی چھاؤں بھی ایسی گرم لگ رہی ہے کہ جسم جل جل جائے۔ نہ کسی درخت کے نیچے جائے پناہ نہ کسی سائبان تلے۔ اب تو ایئر کنڈیشنرز نے بھی کام کرنے سے معذوری ظاہر کر دی ہے۔ جب درجہ حرارت 53 ڈگری تک پہنچ جائے تو پھر بیچارے ایئر کنڈیشنر بھی پناہ مانگنے لگتے ہیں۔
ایک 88 سال بزرگ اور سینئر صحافی مودود صدیقی نے بتایا کہ وہ دہلی میں تقریباً 75 برس سے رہائش پذیر ہیں لیکن انھوں نے ایسی گرم لہر کبھی دیکھی نہ سنی۔ وہ کہتے ہیں کہ ان کی دانست میں کم از کم ایک سو سال میں پارہ اتنا اوپر کبھی نہیں چڑھا ہوگا۔
محکمۂ موسمیات کے مطابق دہلی کے شمال مغربی علاقے منگیش پور میں جہاں بدھ کو درجۂ حرارت تقریباً 53 ڈگری ریکارڈ کیا گیا، 2002 میں 49 ڈگری سے کچھ اوپر گیا تھا۔ قبل ازیں ریاست راجستھان میں 2016 میں 51 ڈگری تک پہنچ گیا تھا۔
مودود صدیقی کہتے ہیں کہ وہ ایئر کنڈیشنر کا استعمال پسند نہیں کرتے۔ وہ ایئر کولر کا استعمال کرتے ہیں۔ 15-20 روز قبل ان کو رات میں کمبل اوڑھنا پڑتا تھا۔ لیکن اب گرمی سے نجات ہی نہیں ملتی۔ تاہم ان کا یہ بھی کہنا ہے کہ اگر کچھ راحت ہے تو لوہے کے ایئر کولر سے ہے۔ لہٰذا ان کی فروخت میں اضافہ ہو گیا ہے۔
اس وقت دہلی کی صورت حال یہ ہے کہ تقریباً پوری آبادی گھروں میں قید ہے۔ شدید ضرورت کے تحت ہی لوگ باہر نکلتے ہیں۔ دہلی کے معروف اور نوجوانوں، بزرگوں،بچوں اور عورتوں کے پسندیدہ انڈیا گیٹ کے میدان پر ویرانی کا ڈیرہ ہے۔ اکا دکا لوگ نظر آتے ہیں۔ یا پھر بوٹنگ کے لیے تعمیر کردہ پولز میں بچے چھلانگ لگاتے دکھائی دے جاتے ہیں۔
اسی طرح ہمایوں کا مقبرہ بھی سونا ہے اور قریب میں واقع انتہائی خوب صورت تفریحی پارک سندر نرسری میں بھی سناٹا ہے جہاں نہ تو عام دنوں میں پاؤں رکھنے کی جگہ ہوتی ہے اور نہ ہی جس کی پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرنے کی۔
ریلوے اسٹیشن بھی سنسنان ہیں اور بس اڈے بھی۔ بازار بھی خالی پڑے ہیں اور تفریحی مقامات بھی۔ دہلی حکومت نے بعض مقامات پر راہگیروں کے آرام کے لیے قد آدم فوارے نصب کر رکھے ہیں۔ جو تیزی کے ساتھ پانی کی بوچھار چھوڑتے ہیں۔ جن کے سامنے لوگ کھڑے ہو کر خود کو بھگوتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔
سڑکوں پر چلنے والی ٹیکسیاں بھی کم ہو گئی ہیں اور آٹو و بیٹری رکشائیں بھی۔ ہم نے جب اپنے پڑوسی آٹو رکشا ڈرائیور علاء الدین کو دن میں گلی میں دیکھا تو ہم اس سے پوچھ بیٹھے کہ کیا تم آٹو نہیں چلا رہے۔
اس نے جواب دیا نہیں انکل نہیں چلا رہے ہیں۔ مزید پوچھنے پر اس نے وضاحت کی کہ ایک تو گرمی میں آٹو چلایا نہیں جاتا اور دوسرے سواری بھی نہیں ملتی۔
’’میں صرف رات میں چند گھنٹے چلاتا ہوں۔ پہلے ایک دن میں دو ڈھائی ہزار روپے کما لیتا تھا مگر اب ایک ہزار کمانا بھی مشکل ہو گیا ہے۔‘‘
اس نے مزید بتایا کہ دن میں سڑک پر نکلو تو گرم ہوائیں استقبال کرتی ہیں۔ کچھ لوگوں نے آٹو میں آگے کی طرف چھوٹے چھوٹے پنکھے فٹ کر رکھے ہیں لیکن ان سے ناقابل برداشت گرم ہوا نکلتی ہے اور مجبوراً انہیں بند کر دینا پڑتا ہے۔
گرمی کی لہر نے اسپتالوں میں مریضوں کی تعداد بڑھا دی ہے۔ دہلی حکومت نے اسپتالوں کو ہدایت دی ہے کہ وہ ’ہیٹ ریلیف ایکشن پلان‘ عمل میں لائیں اور ہیٹ ویو سے متاثرین کے علاج کو یقینی بنائیں۔
اب تو گرم لہر سے اموات کا بھی سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔ جمعرات کو دہلی کے رام منوہر لوہیا اسپتال میں ایک 40 سالہ شخص کی گرمی سے موت ہو گئی۔ وہ بہار کے دربھنگہ کا رہائشی تھا اور دہلی میں کسی فیکٹری میں ورکر تھا۔
ڈاکٹرز کے مطابق اس کے رہائشی کمرے میں نہ کولر تھا نہ پنکھا، جس کی وجہ سے اسے لو لگ گئی، اسے تیز بخار ہوا جو 107 ڈگری تک پہنچ گیا۔ لاکھ کوششوں کے باوجود اسے بچایا نہیں جا سکا۔
اب تو ایسی بھی خبریں مل رہی ہیں کہ لوگ سڑک پر چلتے چلتے بے ہوش ہو رہے ہیں۔ مودود صدیقی کہتے ہیں کہ ان کے پاس یہ رپورٹ ہے کہ ان کے علاقے دریا گنج میں گرم لہر کی وجہ سے کم از کم دو افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
وہ کہتے ہیں کہ سڑکیں بہت زیادہ گرم ہو رہی ہیں جس کی وجہ سے تارکول پگھل رہا ہے۔ اس پر چلنے والے ایک تو دھوپ، دوسرے گرم لہر اور تیسرے جلتے ہوئے تارکول سے بچ نہیں پاتے، بے ہوش ہو جاتے ہیں۔
دہلی میں کلاس رومز میں طلبہ کے بے ہوش ہونے کی خبریں موصول ہوئی ہیں۔ متعدد طلبہ بیمار پڑ گئے ہیں اور متعدد کے جسم میں پانی کی کمی ہو گئی ہے۔ شمالی بھارت کے دوسرے علاقوں سے بھی طلبہ کے بے ہوش ہونے اور بیمار پڑنے کی اطلاعات موصول ہوئی ہیں۔
ایک ارب 40 کروڑ کی آبادی والے ملک میں اب پانی کی قلت ہونے لگی ہے۔ خود راجدھانی پانی کو ترس رہی ہے۔ حکومت نے وارننگ دے دی ہے کہ جن علاقوں میں 24 گھنٹے رننگ واٹر ملتا تھا اب وہاں پانی کی راشننگ ہونے لگی ہے۔ میونسپل کارپوریشن نے پانی کے غیر ضروری استعمال پر پابندی عاید کر دی ہے۔ کار دھونے پر دو ہزار روپے کا جرمانہ کر دیا گیا ہے۔
پانی کی طرح بجلی کی بھی قلت ہو گئی ہے۔ لوڈ شیڈنگ بڑھا دی گئی ہے اور عوام کو بجلی کے غیر ضروری استعمال پر خبردار کیا گیا ہے۔
لیکن گرمی سے بچنے کا انتظام تو کرنا ہی ہوگا۔ لہٰذا لوگوں نے جگہ جگہ ٹھنڈے پانی اور شربت کی سبیلیں لگانی شروع کر دی ہیں۔ ایسی سبیلیں مسلم اور غیر مسلم تمام علاقوں میں لگ رہی ہیں۔ گرودواروں اور مندروں کے سامنے بھی اور اسلامی مدرسوں کے صحن میں بھی۔
فورم