ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ امریکہ اور ایران کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کا سلسلہ جاری ہے، کیا ایران اور اسکے اتحادی غزہ کی جنگ کے خاتمے کے لئے صدر بائیڈن کی تجاویز مان لیں گے۔۔ ایران کا کہنا ہے کہ اگر اقوام متحدہ کے جوہری ادارے میں اسکے خلاف مذمتی قرار داد منظور ہوئی تو وہ اسکا جواب دے گا۔۔ |
ایران اور امریکہ کے درمیان خلیجی ریاست سلطنت اومان کے توسط سے بات چیت، ایران کے قائم مقام وزیر خارجہ علی باقری کے بقول مسلسل جاری ہے اور کبھی رکا ہی نہیں ہے۔ بیروت کے اپنے دورے میں ایک پریس کانفرنس کے دوران ایک سوال کے جواب میں باقری نے یہ بات کہی۔
مشرق وسطیٰ کے امور پر نظر رکھنے والے، ایران میں مقیم پاکستانی تجزیہ کار ڈاکٹر راشد نقوی کہتے ہیں کہ "اومان کی ثالثی میں بالواسطہ مذاکرات سے تو رہے ہیں لیکن اگر دیکھا جائے تو ان مذاکرات کے نتیجے میں اب تک کوئی بڑی پیشرفت نہیں ہوسکی ہے جبکہ اسرائیل حماس کی جنگ کے سبب خطے میں کشیدگی میں بہت اضافہ ہوا ہے۔"
مشرق وسطیٰ کے امور کے ایک اور ماہر ڈاکٹر فاروق حسنات نے نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ "یہ مذاکرات یقینأ ایران کے مرحوم صدر ابراہیم رئیسی کی مرضی اور پالیسی کے مطابق ہورہے تھے اور اب جب کہ ایران میں نئے صدر کے لئے انتخابات ہو رہے ہیں تو انکے خیال میں ایران میں کوئی بھی صدر آئے اس پالیسی میں تبدیلی کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔"
بقول ان کے ایران میں اقتدار کا اصل سرچشمہ رہبر اعلیٰ ہیں۔ اور وہی پالیسیاں چلتی ہیں جنہیں انکی منظوری حاصل ہو۔ لیکن انہوں نے کہا ہمیں اس پورے معاملے کو اس پس منظر میں دیکھنا ہو گا کہ نومبر میں امریکہ میں بھی صدارتی انتخابات ہو رہے ہیں اور ان میں اگر ڈانلڈ ٹرمپ منتخب ہو جاتے ہیں تو انکی پالیسی کیا ہوگی۔
خیال رہے کہ اپنے دور صدارت میں ٹرمپ نے امریکہ کو ایران اور عالمی قوتوں کے درمیان ہونے والے جوہری معاہدے سے الگ کیا تھا۔ تو اگر وہ منتخب ہوتے ہیں تو کیا اسی پرانی پالیسی پر چلیں گے یا حالات کے مطابق اپنی پالیسی تبدیل کریں گے۔ لیکن صدر بائیڈن کے منتخب ہونے کی صورت میں پالیسی کا تسلسل جاری رہے گا۔اور اس میں تبدیلی کا بظاہر کوئی امکان نظر نہیں آتا۔
ایران اور حماس اسرائیل جنگ
تجزیہ کار سمجھتے ہیں کہ قائم مقام وزیر خارجہ کا منصب سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے دورے کے لئے لبنان کا انتخاب مشرق وسطیٰ کی پیچیدہ صورت حال اور حماس اسرائیل جنگ ہے جو مہینوں سے جاری ہے۔ اور جس میں ایران اور لبنان میں اسکا اتحادی شیعہ گروپ حزب اللہ ، اسرائیل کی مخالفت اور حماس کی حمایت کرتے ہیں۔
اب امریکی صدر جو بائیڈن نے اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے جو فارمولا پیش کیا ہے وہ سب ہی فریقین کے زیر غور ہے اور تجزیہ کاروں کے بقول علی باقری کے لبنان کے دورے کا مقصد اپنے اتحادیوں سے اس فارمولے کے حوالے سے صلاح و مشورہ کرنا بھی ہے۔
ڈاکٹر فاروق حسنات کہتے ہیں کہ" غزہ کی جنگ میں دونوں ہی فریقوں کےلئے سیچوریشن پوائینٹ آگیا ہے۔ اور اب دونو ہی فریق خواہ وہ اسکا اظہار نہ بھی کریں لیکن اب وہ اس جنگ سے تھک چکےہیں۔ اور ایسے حالات میں کسی تیسرے فریق یا فریقوں کی مداخلت سے ہی جنگ ختم ہوتی ہے." انہوں نے کہا وہ سمجھتے ہیں کہ ایران بھی اب یہی چاہے گا کہ یہ جنگ ختم ہونی چاہیئے۔"
اس حوالے سے ڈاکٹر راشد نقوی نے وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ" علی باقری کے لبنان کے دورے کو غزہ کی جنگ اور خطے کے بڑے مسائل کے پس منظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے، جیسا کہ خود قائم مقام وزیر خارجہ نے کہا کہ لبنان اسرائیل کے خلاف مزاحمت کے لحاظ سے بہت اہم ہے۔ راشد نقوی کا کہنا تھا کہ اسوقت مشرق وسطیٰ میں وہ جو مزاحمتی بلاک کہلاتا ہے اس میں شامل تمام گروپ ایک پیج پر آنا چاہتے ہیں۔ اور اس تناظر میں بھی اگر دیکھا جائے تو یہ دورہ بہت اہم ہے۔"
مزاحمتی بلاک
اس وقت مشرق وسطی میں اسرائیل مخالف جو گروپ ہیں جیسے انصار اللہ ہے، حزب اللہ ہے یا عراق اور شام اور دوسرے عرب ممالک میں قائم اسرائیل مخالف گروپ ہیں، انکے ایک طرح کے غیر سرکاری اتحاد کو مزاحمتی بلاک کہا جاتاہے۔ جو ڈاکٹر راشد نقوی کے بقول زیادہ منظم ہونے ایک پیج پر آنےکے لئے کوشاں ہے۔
ایران اور جوہری توانائی کا اقوام متحدہ کا ادارہ۔
اقوام متحدہ کے جوہری توانائی کے ادارے کے بورڈ کی میٹنگ میں تین یوروپی ملک برطانیہ، فرانس اور جرمنی، ایران کی جانب سے ادارے کے ساتھ عدم تعاون کی پاداش میں اسکے خلاف ایک قرارداد مذمت پیش کی ہے۔ جبکہ ایران کا کہنا ہے کہ وہ جوہری ادارے کے ساتھ پوری طرح تعاون کر رہا ہے لیکن اگر ایران کے خلاف اس قسم کی کوئی قرارداد جوہری ادارے کے بورڈ آف گورنر میں منظور کی گئی تو ایران اسکا جواب دے گا۔
یہ جواب ممکنہ طور پر کیا ہو سکتا اسکے بارے میں ڈاکٹر راشد نقوی کا کہنا تھا "جب سابق صدر ڈانلڈ ٹرمپ کے زمانے میں امریکہ جوہری معاہدے سے الگ ہوا تھا تو اسوقت ایرانی پارلیمان نے ایک اسٹریٹیجک ایکشن ایکٹ منظور کیا تھا۔ جس میں متعدد جوابی کارروائیاں تجویز کی گئیں کہ کس اقدام کا کیا جواب دیا جانا ہے۔ چنانچہ جواب کا انحصار اس بات پر ہو گا کہ کس قسم کی قرارداد منظور کی جاتی ہے۔"
ڈاکٹر فاروق حسنات سمجھتے ہیں کہ اگریہ قرارداد منظور بھی ہو جاتی ہے تو اسکے جواب میں ایران ادارے کے ساتھ اپنا تعاون کم کر سکتا ہے۔ مگر نہ تو ادارہ ایسا چاہے گا نہ مغربی طاقتیں، اس لئے کہ ایران کے جوہری پروگرام کے حوالے سے مغربی ممالک پریشان ہیں کہ وہ جوہری بم بنا سکتا ہے جبکہ ایران اسکی مسلسل تردید کرتا رہا ہےکہاس کے کوئی یتھیاروں کے حوالے سے جوہری عزائم ہیں۔
ڈاکٹر فاروق حسنات نے کہا کہ "ویسے بھی ایران خطے میں اپنی پوزیشن کو بتدریج مستحکم بنارہا ہے اور نہ صرف خطے کے ملکوں بلکہ روس اور چین جیسی قوتوں سے اسکی قربتیں بڑھ رہی ہیں۔ اور اب وہ پہلے کے مقابلے میں کہیں بہتر پوزیشن میں ہے۔"
فورم