|
تہران نے تصدیق کی ہے کہ واشنگٹن ڈی سی کے ساتھ سفارتی تعلقات نہ ہونے کے باوجود امریکہ اور ایران کے عمان میں بالواسطہ مذاکرات ہوئے ہیں۔
خبر رساں ادارے 'اے ایف پی' کے مطابق واشنگٹن ڈی سی اور تہران کے درمیان طویل عرصے سے ایران کے متنازع جوہری پروگرام کی وجہ سے کشیدگی ہے اور غزہ میں جاری جنگ کے سبب دونوں ممالک اپنے اپنے اتحادیوں اسرائیل اور حماس کی وجہ سے بھی شدید اختلافات کا شکار ہیں۔
امریکی خبر رساں ادارے 'ایکسیوز' نے رپورٹ کیا ہے کہ امریکہ اور ایران کے حکام نے بالواسطہ مذاکرات خطے میں بڑھتی کشیدگی سے بچنے کے حوالے سے کیے ہیں۔
دوسری طرف ایران کی سرکاری نیوز ایجنسی 'ارنا' نے ہفتے کو رات گئے رپورٹ کیا کہ اقوامِ متحدہ میں ایران کے نمائندے نے عمان میں ایران اور امریکہ کے درمیان بالواسطہ مذاکرات کی تصدیق کی ہے۔
ایجنسی کے نمائندے نے بالواسطہ مذاکرات کے وقت اور جگہ سے متعلق کچھ نہ بتاتے ہوئے کہا کہ یہ مذاکرات نہ تو پہلے تھے اور نہ ہی آخری۔
رپورٹس کے مطابق یہ مذاکرات رواں سال 13 اور 14 اپریل کو ایران کی طرف سے اسرائیل پر داغے گئے غیر متوقع ڈرون حملوں کے بعد ہوئے ہیں جو کہ اسرائیل کے شام میں ایرانی سفارت خانے پر یکم اپریل کو ہونے والے ہلاکت خیز فضائی حملے کا رد عمل قرار دیے گئے تھے۔
شام کے دارالحکومت دمشق میں ایران کے سفارت خانے پر اسرائیل کے حملے میں پاسداران انقلاب کے اہم کمانڈروں سمیت سات افراد ہلاک ہوئے تھے جن میں دو جنرل بھی شامل تھے۔
تہران کی جوابی کارروائی پر اسرائیلی فوج کا کہنا تھا کہ ایران کی طرف سے داغے گئے 300 سے زائد میزائلوں اور ڈرونز میں سے زیادہ تر کو امریکہ اور دیگر اتحادیوں کی مدد سے روکا گیا اور اس حملے سے کوئی بڑا نقصان نہیں ہوا۔
اس کے ایک ہفتے سے بھی کم عرصے کے بعد ایران کے وسطی صوبے اصفہان میں دھماکے ہوئے اور امریکی میڈیا نے ان دھماکوں کو اسرائیلی پر ہونے والے ایرانی حملے کے ردِ عمل کے طور پر رپورٹ کیا۔
رپورٹس کے مطابق بعد ازاں تہران نے اسرائیلی حملے کی اطلاع کو مسترد کر دیا اور کہا کہ جب تک ایرانی مفادات کو دوبارہ نشانہ نہیں بنایا جاتا، وہ اس کا جواب نہیں دے گا۔
خیال رہے کہ اسرائیل 1979 کے اسلامی انقلاب کے بعد سے ایران کا بڑا حریف ملک ہے۔
اسرائیل اور حماس کے درمیان شروع ہونے والی جنگ کے بعد سے خطے میں کشیدگی میں اضافہ ہوا ہے اور شام، عراق اور یمن میں ایران کی پشت پناہی میں فعال عسکری گروپس سرگرم ہو گئے ہیں۔
امریکہ اور اسرائیل مختلف وقتوں میں ان عسکری گروہوں کو نشانہ بناتے رہے ہیں۔
اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات لی گئی ہیں۔