|
اسرائیل نے اختتام ہفتہ ایک ڈرامائی کارروائی میں غزہ میں چار یرغمالوں کو حماس کی قید سے آزاد کرایا ہے جبکہ غزہ کی وزارت صحت کے عہدیداروں کے مطابق اس کارروائی میں دو سو چوہتر فلسطینیوں کو ہلاک کردیا گیا۔
کاروائی اور جنگ بندی مزاکرات
یہ کارروائی آٹھ ماہ سے جاری لڑائی رکوانے کے لئےایک ایسے نازک وقت پر ہوئی ہے جب اسرائیل اور حماس دونوں جنگ بندی اور اسکے ساتھ یرغمالوں کی رہائی کی امریکی تجویز کا جائزہ لے رہے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس نے اپنی ایک تجزیاتی رپورٹ میں بتایا ہے کہ یرغمالوں کو آزاد کرانے کی اسرائیل کی یہ کارروائی جنگ کے آغاز کے بعد سے اس ضمن میں انتہائی کامیاب کارروائی تھی جس پر اسرائیل میں خوشی منائی جا رہی ہے۔
لیکن اس کارروائی میں غزہ کی وزارت صحت کے مطابق 274 فلسطینیوں کی جانیں بھی گئی ہیں جس نے غزہ کے لوگوں کے مصائب کو بڑھا دیا ہے جو ایک جنگ کی تباہ کاریوں اور ایک بڑےانسانی المییے سے دو چار ہیں۔
اس کارروائی کے حوالے سے اسرائیلی کالم نگار نہم برنیہ، اسرائیل کے بڑے پیمانے پر شائع ہونے والے اخبار یوڈوت اہرنوٹ میں لکھتے ہیں کہ اگر کوئی یہ سمجھتا ہے کہ اس کارروائی سے حکومت کسی معاہدے کی ضرورت سے آزاد ہو جاتی ہے تووہ تصوراتی دنیا میں رہتا ہے۔ کیونکہ وہاں ایسے لوگ موجود ہیں جنہیں بچانے کی ضرورت ہے اور یہ جتنی جلدی ہو اتنا ہی بہتر ہے
یہاں تک کہ خود اسرائیلی فوج کے ترجمان رئیر ایڈمرل ڈینیئل ہگاری نے بھی فوجی طاقت کی حدود کو تسلیم کیا ہے اور رپورٹروں کو بتایا کہ زیادہ تر یرغمالوں کو کسی معاہدے کے ذریعے ہی زندہ واپس لایا جا سکتا ہے۔
خیال رہے کہ ایک سو سے زیادہ یرغمالوں کو گزشتہ برس ایک ہفتے کی جنگ بندی کے دوران اسرائیل میں قید فلسطینیوں کی رہائی کے بدلے آزاد کیا گیا تھا۔ اور زیادہ تریہ سمجھا جا رہا ہے کہ اسی قسم کا کوئی معاہدہ باقی یرغمالوں کو واپس لانے کا واحد طریقہ ہے۔
ہفتے کے روز کی اس کارروائی کے بعد ہزاروں اسرائیلیوں نے تل ابیب میں احتجاج میں شرکت کی اور اس قسم کے معاہدے کا مطالبہ کیا۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے گزشتہ ہفتے جنگ بندی اور یرغمالوں کی رہائی کے ایک بتدریج نافذ ہونے والے معاہدے کی تجویز پیش کی تھی۔
صدر بائیڈن نے اسے ایک اسرائیلی تجویز قرار دیا تھا لیکن وزیر اعظم نیتن یاہو نے اسکے بعض پہلوؤں کے بارے میں، خاص طور سے غزہ سے اسرائیلی فوجوں کی واپسی کے حوالے سے برسر عام سوالات اٹھائے تھے۔
یہ کارروائی نیتن یا ہو کی شاذو نادر ہونے والی جیت تھی، جن پر بہت سے اسرائیلی سیکیورٹی میں ناکامی کا الزام عاید کرتے ہیں جسکے نتیجے میں سات اکتوبر کا حملہ ممکن ہوا۔ وہ ان پرمہینوں کی جنگ کے باوجود یرغمالوں کو واپس لانے میں ناکامی کا الزام بھی عائد کرتے ہیں۔
دریں اثنا ء کالم نگار بین کیسپٹ نے روزنامہ ماریو میں لکھا ہےکہ چار یرغمالیوں کو رہا کرانے میں کامیابی ایک شاندار حکمت عملی کی فتح ہے جس نے ہماری افسوسناک اسٹریٹیجک صورت حال کو تبدیل نہیں کیا۔
اے پی کا کہنا ہے کہ ہوسکتا ہے کہ یہ کارروائی اسرائیلی عوام کو اسطرح کا بڑھاوا دے کہ وہ حماس کے ساتھ معاہدے کا جواز بنا سکیں یا پھر وہ اس نتیجے پر بھی پہنچ سکتے ہیں کہ وقت انکی گرفت میں ہے اور وہ جنگجوؤں کے ساتھ سخت سودے بازی کر سکتے ہیں۔
ایسوسی ایٹڈ پریس کے بقول، دوسری طرف حماس سودے بازی کے لئے موجود یرغمالوں میں سے چار سے محروم ہوگیاہے، جنکے بارے میں اسے امیدہے کہ وہ انکے بدلے ہائی پروفائل فلسطینیوں کو اسرائیل کی قید سے چھڑا سکے گا۔
اس کارروائی سے ہو سکتا ہے کہ حماس کے حوصلے پر بھی ضرب پڑے
لیکن حماس کی اسرائیل اور دوسروں کا دباؤ برداشت کرنے کی طویل تاریخ ہے جو اکثر عام فلسطینیوں کی قیمت پر ہوتی ہے۔
ہوسکتا ہے کہ عسکریت پسند اس نتیجے پر پہنچیں کہ بقیہ یرغمالوں کو اس جنگ کو ختم کرنے کے لئے استعمال کرنا بہتر ہے۔ اور یا وہ انہیں چھپانے کے لئے بہتر جگہ تلاش کر سکتے ہیں۔
اس خبر کے لئے مواد اے پی سے لیا گیا ہے۔
فورم