"مجھے اسرائیل کے اس خیال سے انتہائی ہمدردی ہے کہ آپ کو حماس کو ختم کرنا ہوگا۔" تاہم آپ اس کا مکمل خاتمہ نہیں کر سکتے۔یہ کہنا تھا افغانستان میں امریکی کمانڈ سیٹکام کے سابق جنرل مکینزی کا، جن سے وائس آف امریکہ کی کارلا باب نےمنگل کو انٹرویو کیا۔
اس انٹرویو میں افغانستان سے امریکی فوجوں کے انخلا کے علاوہ، یوکرین کے تنازعے، اور اسرائیل حماس جنگ پر بھی بات کی گئی۔
وائس آف امریکہ نےسابق جنرل فرینک میکنزی سے سوال کیا کہ آیا حماس کے خلاف اسرائیل کی جنگ جیتی جا سکتی ہے؟
حماس کا مکمل خاتمہ مشکل ہے
اس سوال کے جواب میں کہ غزہ میں حماس کے خلاف جنگ جیتی جا سکتی ہے، مکینزی کا کہنا تھا کہ میرے خیال میں یہ ممکن ہے جس کے لیے بعد میں غزہ کے اندر جنگ کی نہیں بلکہ ایک وژن کی ضرورت ہے جس میں اسرائیلی فوجیوں کے علاوہ دیگر فوجی بھی شامل ہوں۔
سابق جنرل مکینزی کے بقول اس کے لیے"میں سمجھتا ہوں کہ عرب فوجیں مختلف اقوام سے تعلق رکھنے کی وجہ سے بہترین ہوں گی۔"
انہوں نے اس پر زور دیا کہ اس کے لیے توجہ سرمایہ کاری، انفراسٹرکچر کی تعمیر اور بحالی، اور انسانی امداد کے کاموں پر مرکوز رکھنے کی ضرورت ہوگی،"لیکن آپ کو اسے یقینی بنانا ہوگا کہ حماس اس equation کا حصہ نہ ہو۔"
اسرائیلی فوج کے زمینی اور فضائی حملوں سے غزہ کا زیادہ تر حصہ کھنڈرات میں تبدیل ہو چکا ہے۔
ریٹائرڈ امریکی جنرل نے کہا کہ مجھے اسرائیل کے اس خیال سے انتہائی ہمدردی ہے کہ آپ کو حماس کو ختم کرنا ہوگا۔ تاہم انہوں نے کہا آپ اس کا خاتمہ نہیں کر سکتے۔
حماس ایک انقلابی تحریک ہے۔ اگر اس کے 99 جنگجو مارے جاتے ہیں تو 100 واں کھڑے ہو کر انقلاب کا اعلان کر دے گا۔ اس معاملے سے کسی اور طریقے سے نمٹنے کی ضرورت ہے۔
سابق جنرل نے کہا ہے کہ اسرائیل نے حماس کے بہت سے جنگی فارمیشنز کو ختم کر دیا ہے۔تاہم اب بھی کچھ باقی ہیں۔ میرے خیال میں وہ حماس کی سینئر قیادت کو حاصل کرنے میں قدرے کم کامیاب رہے ہیں، کیونکہ انہوں نے چھپنے کا انتخاب کیا ہے یہاں تک کہ اس وقت بھی جب ان کے جنگجو لڑ رہے ہوں۔
ریٹائرڈ جنرل فرینک مکینزی نے کہا انہوں نے زیر زمین یرغمالوں کے ساتھ خود کو محفوظ رکھا ہوا ہے۔ اور بلاشبہ اس معاملے میں اصل یرغمال غزہ کی آبادی ہے، جسے "لائین آف فائر" سے باہر نکالنے میں حماس کو کوئی دلچسپی نہیں ہے۔
وائس آف امریکہ کی کارلا بیب کی رپورٹ۔
فورم