|
واشنگٹن _ امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے ایک انٹرویو میں صدارتی الیکشن مہم کے پہلے مباحثے میں اپنی خراب کارکردگی کا اعتراف کیا ہے۔ البتہ وائٹ ہاؤس میں یومِ آزادی کی تقریب کے دوران انہوں نے کہا کہ وہ کہیں نہیں جا رہے۔
جمعرات کو امریکہ کے 248ویں یومِ آزادی کے سلسلے میں وائٹ ہاؤس میں ایک تقریب منعقد ہوئی جس میں چند ہزار فعال ڈیوٹی فوجی ارکان اور ان کے اہل خانہ شریک تھے۔
تقریب میں شامل ایک شخص نے بلند آواز میں صدر بائیڈن سے کہا، "(آپ) لڑائی جاری رکھیں۔" جس پر صدر بائیڈن نے کہا،"میں آپ کے ساتھ ہوں، میں کہیں نہیں جا رہا ہوں۔"
صدر بائیڈن پانچ نومبر کو ہونے والے صدارتی انتخابات میں ڈیموکریٹک پارٹی کی طرف سے امیدوار ہیں جن کا مقابلہ متوقع طور پر ری پبلکن امیدوار ڈونلڈ ٹرمپ سے ہو گا۔
دونوں صدارتی امیدواروں کے درمیان گزشتہ جمعے پہلا صدارتی مباحثہ ہوا تھا جس میں صدر بائیڈن کی کارکردگی حریف کے مقابلے میں کمزور رہی تھی۔ مباحثے کی خراب کارکردگی کے بعد سے بائیڈن کی ذہنی اور جسمانی صلاحیتوں کو جانچا جا رہا ہے۔
بحث کے دوران بعض اوقات ایسا لگا کہ بائیڈن اپنی سوچ سے ہٹ گئے ہیں۔ یہاں تک کہ ایک موقع پر انہوں نے یہ بھی غلط کہا کہ انہوں نے بزرگ شہریوں کی صحت کی انشورنس کے پروگرام 'میڈی کیئر' کو ختم کر دیا ہے۔
اس کے بعد سے صدر بائیڈن ووٹروں، ڈیموکریٹک پارٹی کے عہدیداروں اور الیکشن مہم کے لیے عطیہ دہندگان کو اپنے بارے میں یقین دہانی کرانے کی کوشش میں مزید عوامی تقریبات میں شریک ہو رہے ہیں اور انٹرویوز دے رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہ ہے کہ وہ یہ ظاہر کرسکیں کہ وہ انتخاب لڑنے کے لیے فٹ ہیں اور مزید چار سال تک صدر کے طور پر خدمات انجام دینے کے قابل ہیں۔
یومِ آزادی کی تقریب سے قبل وسکونسن ریڈیو اسٹیشن کے ساتھ چار جولائی کی مناسبت سے ایک انٹرویو میں صدر بائیڈن نے اعتراف کیا کہ پہلے صدارتی مباحثے میں ان کی کارکردگی اچھی نہیں رہی۔
بائیڈن نے کہا، "(یہ) میری ایک بری رات تھی۔ اور اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ، آپ جانتے ہیں، میں نے خراب کیا، مجھ سے غلطی ہوئی، لیکن میں نے اپنے والد سے سیکھا ہے کہ آپ اگر جاتے ہیں تو آپ کو واپس اٹھ کھڑا ہونا چاہیے۔"
صدارتی مباحثے کے بعد دو ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بائیڈن سے انتخابی دوڑ سے دستبردار ہونے کا مطالبہ کیا۔
تاہم، اعلیٰ ڈیموکریٹک قانون سازوں نے بائیڈن کی الیکشن مہم جاری رکھنے کی حمایت کی ہے۔
بائیڈن کی جانب سے انتخابی مہم جاری رکھنے کا عزم ایسے موقع پر سامنے آ رہا ہے جب بعض ڈیموکریٹک رہنماؤں نے عوامی سطح پر سوال اٹھایا کہ کیا 81 سالہ صدر کے پاس ذہنی اور جسمانی صلاحیت ہے کہ وہ اگلے چار مہینوں تک ایک بھرپور مہم جاری رکھ سکیں؟
یہ بھی سوال اٹھایا گیا کہ اگر وہ جیت جاتے ہیں تو کیا بائیڈن اگلے چار سالوں میں حکومت کر پائیں گے؟
صدر بائیڈن نے اپنی صحت اور عمر سے متعلق بعض افراد کی پریشانی کو دور کرنے کی کوشش کے طور پر امریکی ریاستوں کے ڈیموکریٹک گورنروں سے ملاقات کی۔
اس موقع پر ڈیموکریٹک گورنرز ایسوسی ایشن کے سربراہ اور مینیسوٹا کے گورنر ٹم والز نے صحافیوں کو بتایا کہ بائیڈن کی مباحثے میں کارکردگی خراب تھی لیکن وہ صدر عہدے کے لیے موزوں ہیں۔
دارالحکومت واشنگٹن ڈی سی سے متصل ریاست میری لینڈ کے گورنر ویس مور نے کہا کہ یہ واضح ہے کہ بائیڈن جیتنے کے لیے انتخابی دوڑ میں شامل ہیں اور وہ ہمارے نامزد امیدوار اور پارٹی کے رہنما ہیں۔
ہوائی کے گورنر جوش گرین نے سوشل پلیٹ فارم 'ایکس' پر ایک پوسٹ میں کہا کہ آئندہ صدارتی انتخابات میں یہ بات واضح ہے کہ ہم ایک کمانڈر ان چیف کا انتخاب کر رہے ہیں نہ کہ ایک ڈیبیٹر ان چیف کا۔
دوسری جانب قومی اور ریاستی سطح پر کیے گئے سروے ظاہر کر رہے ہیں کہ ری پبلکن پارٹی کے ممکنہ صدارتی امیدوار ٹرمپ نے صدارتی بحث کے نتیجے میں فائدہ حاصل کیا ہے جب کہ پولسٹرز کا کہنا ہے کہ دونوں امیدواروں کے درمیان مقابلہ اب بھی بہت سخت ہے۔
بائیڈن نے سینئر ڈیموکریٹک قانون سازوں کے ساتھ نجی طور پر بات کی ہے۔ ان قانون سازوں میں نیویارک کے سینیٹ کے اکثریتی رہنما چک شومر، نیویارک کے ہاؤس اقلیتی رہنما حکیم جیفریز، ڈیلاویئر ریاست کے سینیٹر کرس کونز اور جنوبی کیرولائنا کے نمائندے جیمز کلائی برن شامل ہیں۔
بات چیت سے واقف لوگوں کا کہنا ہے کہ کانگریس میں بعض قانون ساز خائف ہیں کیوں کہ وہ محسوس کرتے ہیں کہ بائیڈن نے اعلیٰ ڈیموکریٹس اور پارٹی کے دوسرے ممبران سے رابطے کرنے میں سست روی سے کام لیا ہے۔
وائٹ ہاؤس کے چیف آف اسٹاف جیف زیئنٹس نے بائیڈن کے دوبارہ انتخاب کے نظام پر وائٹ ہاؤس کے عملے کے اعتماد میں اضافہ کرنے کی کوشش میں کہا ہے کہ صدر کے پاس ایک "مضبوط مہم ٹیم" موجود ہے اور وائٹ ہاؤس کا کام بائیڈن کے ایجنڈے پر عمل درآمد جاری رکھنے پر توجہ مرکوز رکھنا ہے۔
فورم