رسائی کے لنکس

فلسطینیوں کی مدد؛ ترک صدر ایردوان کی اسرائیل میں داخل ہونے کی دھمکی


فائل فوٹو
فائل فوٹو
  • ترک صدر کے مطابق ترکیہ اسرائیل میں بھی اسی طرح داخل ہو سکتا ہے جس طرح وہ ماضی میں لیبیا اور ناگورنو کاراباخ میں داخل ہو چکا ہے۔
  • ترکیہ کو مضبوط ہونا ہوگا تاکہ اسرائیل فلسطین کے ساتھ اس طرح کی نامعقول حرکت نہ کر سکے: ایردوان
  • ان کے بقول "ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم یہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں لازمی طور پر مضبوط ہونا ہوگا۔"
  • حکمران جماعت کے ترجمان نے صدر کے بیان کی کوئی وضاحت نہیں کی۔

ترکیہ کے صدر رجب طیب ایردوان نے فلسطینیوں کی مدد کے لیے اسرائیل میں داخل ہونے کی دھمکی دی ہے۔

اتوار کو ترک صدر رجب طیب ایردوان کا کہنا تھا کہ ترکیہ اسرائیل میں بھی اسی طرح داخل ہو سکتا ہے جس طرح وہ ماضی میں لیبیا اور ناگورنو کاراباخ میں داخل ہو چکا ہے۔

انہوں نے اپنے اس بیان کی مزید وضاحت نہیں کی کہ وہ کس قسم کی مداخلت کا انتباہ کر رہے ہیں۔

خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق رجب طیب ایردوان اسرائیل کی حماس کے خلاف غزہ میں شروع کی گئی جنگ کے شدید ناقد رہے ہیں۔ انہوں نے خطاب میں ترکیہ کی دفاعی صنعت کی تعریف کرتے ہوئے غزہ جنگ کا تذکرہ شروع کیا تھا۔

خطاب کے دوران جنگ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ترک صدر کا مزید کہنا تھا کہ "ہمیں مضبوط ہونا ہوگا تاکہ اسرائیل فلسطین کے ساتھ اس طرح کی نامعقول حرکت نہ کر سکے۔"

اپنے آبائی علاقے ریزہ میں ترکیہ کی حکمران جماعت جسٹس اینڈ ڈویلپمنٹ پارٹی (اے کے پی) کے اجلاس سے خطاب میں انہوں نے کہا کہ جس طرح ہم ناگورنو کاراباخ میں داخل ہوئے اور جس طرح ہم لیبیا میں داخل ہوئے، بالکل اسی طرح ہمیں ان کے ساتھ بھی کرنا ہوگا۔

ایردوان کا پارٹی کے اجلاس سے خطاب ٹی وی چینلز پر بھی دکھایا گیا جس میں ان کا مزید کہنا تھا کہ ’’ایسی کوئی وجہ نہیں ہے کہ ہم یہ نہیں کرسکتے۔ ہمیں لازمی طور پر مضبوط ہونا ہوگا تو ہم یہ قدم اٹھا سکیں گے۔‘‘

’رائٹرز‘ کے مطابق رجب طیب ایردوان کے خطاب کے حوالے سے اے کے پارٹی کے ترجمان سے رابطہ کیا گیا مگر انہوں نے صدر کے بیان کی مزید کوئی وضاحت نہیں کی۔

دوسری جانب اسرائیل نے بھی ترکیہ کے صدر کے بیان پر کوئی تبصرہ نہیں کیا۔

ترک صدر ممکنہ طور پر ماضی میں ترکیہ کے اقدامات کا حوالہ دے رہے تھے۔

ترکیہ نے 2020 میں لیبیا میں اپنی فوج بھیجی تھی جس نے وہاں پر اقوامِ متحدہ کی منظور شدہ حکومت ’نیشنل اکارڈ آف لیبیا‘ کی مدد کی تھی۔

لیبیا میں اس وقت وزیرِ اعظم عبد الحمید محمد عبد الرحمٰن الدبیبہ کی حکومت قائم ہے جس کو ترکیہ کی پشت پناہی حاصل ہے۔

اسی طرح ناگورنو کاراباخ پر آذربائیجان اور آرمینیا کے درمیان 30 سال سے زائد عرصے سے جاری تنازع گزشتہ برس اس وقت ختم ہوا جب آذربائیجان نے اس علاقے پر مکمل قبضہ کر لیا۔ آرمینیائی علیحدگی پسندوں نے 1994 سے اس متنازع علاقے پر حکومت قائم کی تھی۔

ناگورنو کاراباخ کا علاقہ آذربائیجان کے اندر واقع ہے۔ لیکن اس کی آبادی زیادہ تر نسلی آرمینیائی باشندوں پر مشتمل ہے ۔ آذربائیجان نے 2020 میں جنگ کے بعد اس کے کچھ حصوں پر دوبارہ ملکیت کا دعویٰ کیا تھا۔

ناگورنو کاراباخ پر آذربائیجان نے گزشتہ برس قبضہ کیا تھا۔
ناگورنو کاراباخ پر آذربائیجان نے گزشتہ برس قبضہ کیا تھا۔

ناگورنو کاراباخ بنیادی طور پر پہاڑوں سے گھرا علاقہ ہے جسے 1921 میں سابق سوویت آمر اسٹالن نے آرمینیا سے الگ کر کے آذربائیجان سے منسلک کر دیا تھا۔ یہ اس وقت سے مستقل کشیدگی کا مرکز رہا۔

ناگورنو کاراباخ کی پہلی اور دوسری جنگ میں آذربائیجان کو ترکیہ کی حمایت حاصل تھی۔

ترک وزارتِ دفاع کے ایک عہدیدار نے گزشتہ برس کہا تھا کہ ترکیہ اپنے قریبی اتحادی آذربائیجان کی حمایت کے لیے فوجی تربیت اور اسے جدید خطوط پر استوار کرنے کے ساتھ ساتھ تمام وسائل استعمال کرتا رہا ہے۔ لیکن ترکیہ نے ناگورنو کاراباخ میں آذربائیجان کے فوجی آپریشن میں براہِ راست کوئی کردار ادا نہیں کیا۔

(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)

فورم

XS
SM
MD
LG