رسائی کے لنکس

دہلی: کوچنگ سینٹر کے بیسمنٹ میں پانی بھرنے سے تین طلبہ کی ہلاکتوں پر احتجاج جاری


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • بارش کے نتیجے میں ایجوکیشن سینٹر کے زیرِ زمین حصے میں پانی بھر گیا جس کے باعث تین طلبہ کی موت ہوئی۔
  • دہلی میں سول سروس کے امتحان کے لیے تیاری کرانے والے سینکڑوں مراکز ہیں اور ماضی میں بھی ان سینٹرز میں حادثات ہوتے رہے ہیں۔
  • کوچنگ سینٹرز بھی دکانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جہاں طلبہ کے لیے کوئی خاص سہولتیں نہیں ہوتیں: ماہرِ تعلیم
  • دہلی کی سابق میئر آرتی مہرہ کا کہنا ہے کہ دہلی میں ایسے بہت سے کوچنگ سینٹرز ہیں جو بیسمنٹ میں یا چھتوں پر غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔

نئی دہلی—بھارت میں وسطی دہلی کے اولڈ راجندر نگر کے علاقے میں واقع سول سروس کی تیاری کرنے والے طلبہ کے کوچنگ سینٹر کے تہہ خانے میں پانی بھرنے سے تین طلبہ کی موت ہوئی ہے۔ اس حادثے کے خلاف ہفتے کی شام ہی سے جائے حادثہ پر طلبہ کا احتجاج جاری ہے۔

یہ کوچنگ سینٹر جس کا نام ’راؤ آئی اے ایس اسٹڈی سرکل‘ ہے، دہلی کے 10 اعلیٰ سینٹرز میں شمار کیا جاتا ہے۔

طلبہ کے احتجاج کے پیش نظر سیکیورٹی فورسز طلب کر لی گئی ہیں۔ اس دوران بعض سیاسی شخصیات بھی وہاں پہنچیں جن کو طلبہ نے واپس کر دیا اور کہا کہ وہ اس معاملے کو سیاسی رنگ دینا نہیں چاہتے۔

احتجاجی طلبہ نے اس حادثے کے لیے دہلی میونسپل کارپوریشن اور سینٹر کو ذمے دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہم دو روز سے یہاں احتجاج کر رہے ہیں۔ لیکن انتظامیہ کا کوئی اہل کار ابھی تک نہیں آیا ہے۔

ہلاک ہونے والے طلبہ کا تعلق کیرالہ، تیلنگانہ اور اترپردیش سے تھا۔ ان میں دو طالبات ہیں جن کے نام تانیا سونی اور شرییا یادو ہیں جب کہ طالب علم کا نام نوین دیلوِن ہے۔

میڈیا رپورٹس کے مطابق جس عمارت میں ’راؤ آئی اے ایس اسٹڈی سرکل‘ واقع ہے اس کے بیسمنٹ میں لائبریری ہے۔ ہفتے کی شام کو زوردار بارش کے نتیجے میں بیسمنٹ میں پانی بھر گیا۔

لائبریری میں آمد و رفت کا صرف ایک دروازہ ہے۔ جس وقت حادثہ ہوا وہاں کم از کم 20 طلبہ پڑھائی کر رہے تھے۔

پولیس نے سینٹر کے مالک ابھیشیک گپتا اور کوآرڈینیٹر دیش پال سنگھ کو گرفتار کر لیا اور ان کے خلاف بلا ارادہ قتل کا مقدمہ درج کیا ہے۔

سینٹر کو اسی ماہ نو آبجکشن سرٹیفکیٹ دیا گیا تھا۔ اس تین منزلہ عمارت میں نیچے کی جانب پارکنگ اور بیسمنٹ ہے۔ بیسمنٹ کا استعمال اسٹوریج کے لیے ہونا تھا۔ لیکن اس میں سینٹر کی لائبریری تھی۔

ابتدائی جانچ کے مطابق بیسمنٹ زمین سے آٹھ فٹ نیچے ہے۔ فائر بریگیڈ کے اہل کاروں کے مطابق انھیں ہفتے کی شام میں سات بجے بیسمنٹ میں پانی بھر جانے اور متعدد طلبہ کے پھنسے ہونے کی اطلاع دی گئی۔

ان کے مطابق 10، 12 طلبہ کو بچا کر وہاں سے نکال لیا گیا۔ البتہ تینوں طلبہ کی لاشیں اتوار کی صبح چار بجے نکالی گئیں۔

دہلی کی مئیر شیلی اوبرائے نے حادثے کو افسوس ناک قرار دیا اور کہا کہ اس کی مکمل جانچ ہونی چاہیے۔

انھوں نے ایسے تمام کوچنگ مراکز کے ذمہ داروں کے خلاف کارروائی کا حکم دیا ہے جو قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے بیسمنٹ وغیرہ میں کوچنگ سینٹرز چلا رہے ہیں۔

دہلی کے لیفٹیننٹ گورنر (ایل جی) وی کے سکسینہ نے بھی حادثے کی جانچ کرانے کی بات کہی ہے۔

واضح رہے کہ دہلی میں ایسے سینکڑوں کوچنگ سینٹرز ہیں جن میں سول سروس کی تیاری کرائی جاتی ہے۔ ایسے مراکز زیادہ تر مکھرجی نگر، راجندر نگر اور جواہر لعل نہرو یونیورسٹی (جے این یو) کے قریب آئی آئی ٹی علاقے میں واقع ہیں۔

ان مراکز میں وقتاً فوقتاً حادثات ہوتے رہتے ہیں۔ 25 جولائی کو پٹیل نگر میں پانی بھرنے کی جگہ پر کرنٹ دوڑ جانے سے سول سروس کی تیاری کرنے والے ایک طالب علم کی موت ہو گئی۔

کرنٹ ایک لوہے کے گیٹ میں آگیا تھا۔ طالب علم کے اس سے چھو جانے کی وجہ سے اس کی موت ہو گئی۔ دہلی کی وزیر آتشی نے اس واقعے کی جانچ کا حکم دیا ہے۔

دہلی یونیورسٹی میں استاد اور ماہر تعلیم پروفیسر لتیکا گپتا نے ایسے حادثات کے لیے تعلیم کے نجی کرن (پرائیویٹائزیشن) کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ گزشتہ 10-15 برس سے تعلیم کو نجی ہاتھوں میں دینے کا جو سلسلہ شروع ہوا ہے ایسے حادثات اسی کا نتیجہ ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کوچنگ مراکز بھی دکانوں میں تبدیل ہو گئے ہیں جہاں طلبہ کے لیے کوئی خاص سہولتیں نہیں ہوتیں۔ دہلی میں پورے ملک سے ہزاروں طلبہ بہتر مستقبل کا خواب لے کر آتے ہیں لیکن ان کے خوابوں میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے انتظامات نہیں ہیں۔

ان کے بقول دہلی میں جو کوچنگ مراکز ہیں وہاں کے حالات کو دیکھ کر گھٹن کا احساس ہوتا ہے۔ خود دہلی یونیورسٹی میں بھی حالات بہت اچھے نہیں ہیں۔ اب طلبہ کے لیے ہاسٹلوں کی تعمیر نہیں ہوتی۔ نہ ہی طلبہ ان کا مطالبہ کرتے ہیں۔ بیشتر طلبہ نجی ہاسٹلوں میں پیئنگ گیسٹ کے طور پر رہتے ہیں اور وہاں کے حالات اچھے نہیں ہیں۔

انھوں نے مزید کہا کہ اب بہتر تعلیم، غلطیوں سے پاک امتحانی نظام اور اس سے متعلق دیگر باتوں پر غور کرنا چھوڑ دیا گیا ہے۔

یاد رہے کہ حالیہ کچھ برسوں کے دوران اعلیٰ درجات میں داخلہ لینے کے لیے منعقد ہونے والے امتحانات کے پرچے لیک ہو رہے ہیں جس کی وجہ سے بہت سے اہم امتحانات معلق پڑے ہیں۔

میڈیکل کے کورس میں داخلہ لینے کے لیے کرائے جانے والے امتحان این ای ای ٹی (نیشنل ایلی جبلٹی انٹرینس ٹیسٹ) کا پرچہ لیک ہونے سے پورے ملک میں ہنگامہ ہے۔ اپوزیشن اس کے لیے حکومت کے تعلیمی نظام کو ذمہ دار ٹھہرا رہا ہے۔

پروفیسر لتیکا گپتا کے خیال میں ملک میں تعلیمی نظام افسوسناک حد تک خراب ہو گیا ہے۔ اس کے معیار کو بہتر بنانے کے لیے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جا رہی ہے۔

مرکزی اور صوبائی حکومتوں کے ایک دوسرے پر الزامات

اس حادثے پر دہلی میں حکمراں عام آدمی پارٹی اور مرکز میں حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) نے ایک دوسرے کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

بی جے پی کے ترجمان منجندر سنگھ سرسہ نے نشریاتی ادارے ’این ڈی ٹی وی‘ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ دہلی حکومت اور میونسپل کارپوریشن کی غلطی سے ایسا ہوا ہے۔

انھوں نے اس حادثے کو قتل قرار دیا۔

جب کہ عام آدمی پارٹی کے رکن اسمبلی درگیش پاٹھک نے بی جے پی کو ذمہ دار ٹھہرایا ہے۔

انھوں نے کہا کہ اس حادثے کے ذمہ داروں کے خلاف سخت کارروائی کی جانا چاہیے۔

ان کے مطابق بی جے پی 15 سال تک دہلی میونسپل کارپوریشن میں برسراقتدار تھی۔ اس کے زمانے سے ہی ڈرینیج سسٹم ناکارہ ہوا ہے۔ ہم ڈیڑھ سال سے اس کی صفائی کر رہے ہیں۔ انھوں نے بھی حادثے کی اعلیٰ سطحی جانچ کا مطالبہ کیا۔

دہلی کی سابق میئر آرتی مہرہ کا کہنا ہے کہ دہلی میں ایسے بہت سے کوچنگ سینٹرز ہیں جو بیسمنٹ میں یا چھتوں پر غیر قانونی طور پر چلائے جا رہے ہیں۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ ان تمام سینٹرز کی بڑے پیمانے پر جانچ ہونی چاہیے اور جو سینٹرز قواعد و ضوابط کی خلاف ورزی کرتے ہوئے پائے جائیں ان کے خلاف سخت کارروائی کی جائے۔ ورنہ آگے چل کر ایسے مزید حادثات ہو سکتے ہیں۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

XS
SM
MD
LG