|
ویب ڈیسک۔۔۔دہشت گردی کی روک تھام سے متعلق اقوام متحدہ کے ایک عہدے دار نے جمعرات کو خبردار کیا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ(داعش) گروپ کی افغانستان شاخ کی جسے داعش خراسان کہا جاتا ہے، تنظیمی طاقت میں اضافہ ہو رہا ہےجس سے یورپ کے لیے بیرونی دہشت گردی کا خطرہ بڑھ گیا ہے۔
اقوام متحدہ کے انسداد دہشت گردی سے متعلق انڈر سیکرٹری جنرل ولادی میر وورونکوف نے کہا ہے کہ ’آئی ایس آئی ایل۔ کے‘ نے گزشتہ چھ ماہ کے دوران افغانستان اور وسطی ایشیا کے علاقے میں اپنے لیے مدد بڑھا کر اپنی مالیاتی اور لاجسٹک صلاحیتوں میں اضافہ کر لیا ہے۔
آئی ایس آئی ایل۔کے یا آئی ایس آئی ایس۔ کے، افغانستان میں جہادی گروپ کی ایک شاخ ہے جو اس علاقے میں اسلامک اسٹیٹ صوبہ خراسان کے نام سے اپنی پہچان رکھتی ہے۔
اس گروپ نے مارچ کے مہینے میں ماسکو کے ایک میوزک ہال پر حملے کی ذمہ داری قبول کی تھی، جس میں 145 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔
بدھ کے روز، آسٹریا کے حکام نے اسلامک اسٹیٹ سے منسلک مشتبہ افراد کو ویانا میں ٹیلر سوئفٹ کنسرٹ پر حملہ کرنے کی مبینہ سازش کے الزام میں حراست میں لیا ہے اگرچہ اس کا تعلق افغانستان کی شاخ سے نہیں بتایا گیا ہے۔
تاہم افغانستان میں قائم اسلامک اسٹیٹ شاخ کا بیرون ملک دہشت گردانہ حملے کرنے کا خطرہ نمایاں ہو گیا ہے۔ وورونکوف کا کہنا تھا کہ گروپ نے اپنی بھرتی کی کوششوں کو تیز کر دیا ہے۔
اس حوالے سے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل انتونیو گوتریس کی گزشتہ ماہ شائع ہونے والی تازہ ترین رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ حکام یورو فٹ بال چیمپئن شپ اور پیرس اولمپکس کے دوران ممکنہ حملوں کے خطرے کی وجہ سے ہائی الرٹ تھے۔
گوتریس نے اس رپورٹ میں کہا تھا کہ، ’میں تمام رکن ممالک سے اپیل کرتا ہوں کہ وہ افغانستان کو دوبارہ دہشت گردانہ سرگرمیوں کا گڑھ بننے سے روکنے کے لیے متحد ہو جائیں جو دوسرے ممالک کو متاثر کرتی ہیں‘۔
وورونکوف نے مشرق وسطیٰ میں اسلامک اسٹیٹ کے مرکزی ڈھانچے دوبارہ ابھرنے اور افریقہ کی بگڑتی ہوئی صورت حال سے خبردار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اسلامک اسٹیٹ صوبہ ویسٹ افریقہ اور اسلامک اسٹیٹ ساحل برانچ نے اپنی کارروائیوں کے علاقوں میں اضافہ کر دیا ہے اور ان میں مضبوطی لے آئی ہے۔
انہوں نے موزمبیق، ڈیموکریٹک ریبپلک کانگو اور صومالیہ میں اسلامک اسٹیٹ سے منسلک گروہوں کے حملوں میں اضافے کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ مالی سے لے کر شمالی نائیجریا تک کے علاقے ان کے مؤثر کنٹرول میں جا سکتے ہیں۔
(اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم