رسائی کے لنکس

جے شنکر کا دورۂ مالدیپ؛ 'بھارت خطے میں چین کا اثر و رسوخ کم کرنا چاہتا ہے'


  • بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر کے دورۂ مالدیپ کے دوران مختلف معاہدوں پر دستخط کیے گئے ہیں۔
  • ماہرین کا کہنا ہے کہ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت ختم ہونے کے بعد بھارت دیگر ملکوں سے روابط بڑھا رہا ہے۔
  • ماہرین کے مطابق مالدیپ کے صدر محمد معیزو کا جھکاؤ بھی چین کی طرف ہے۔
  • مبصرین کے مطابق اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرِ خارجہ مالدیپ میں تین روز رہے۔

بھارت کے وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر نے مالدیپ کا تین روزہ دورہ مکمل کر لیا ہے۔ بنگلہ دیش میں شیخ حسینہ حکومت کے خاتمے اور دیگر ہمسایہ ملکوں کے ساتھ خراب تعلقات کے تناظر میں اس دورے کو اہمیت کا حامل قرار دیا جا رہا ہے۔

بعض تجزیہ کار کہتے ہیں کہ اس کا مقصد مالدیپ سے بھارت کے کشیدہ تعلقات کو پٹری پر واپس لانا تھا۔ جب کہ بعض کا خیال ہے کہ اس کا درپردہ مقصد مالدیپ میں چین کے بڑھتے اثر و رسوخ کو کم کرنا بھی تھا۔

واضح رہے کہ چین حامی محمد معیزو کے گزشتہ سال نومبر میں صدر کا عہدہ سنبھالنے اور بھارت سے مالدیپ کے تعلقات میں کشیدگی آنے کے بعد بھارت کی جانب سے یہ پہلا اعلیٰ سطحی دورہ تھا۔

مبصرین کے مطابق اس دورے کی اہمیت کا اندازہ اس سے لگایا جا سکتا ہے کہ وزیرِ خارجہ مالدیپ میں تین روز رہے۔ جب کہ عام طور پر وہ اپنا غیر ملکی دورہ ایک یا دو دن میں مکمل کر لیتے ہیں۔

اس موقع پر جے شنکر نے مالدیپ کی قیادت کو یہ یقین دلایا کہ مالدیپ خطہ بحرِ ہند میں امن و استحکام اور خوش حالی کے قیام کے لیے بھارت کا ایک اہم شراکت دار ہے۔

جے شنکر نے مالدیپ کے صدر محمد معیزو، اپنے ہم منصب موسیٰ ضمیر، وزیر دفاع غسان مامون اور مالیات اور معاشی ترقی و تجارت کے وزرا اور مالدیپ مونیٹری اتھارٹی کے گورنر سے بھی ملاقات کی اور باہمی دلچسپی کے امور پر وسیع تر تبادلہ خیال کیا۔

چین کے اثرات کم کرنے کی کوششیں؟

بھارتی وزارتِ خارجہ کے بیان کے مطابق یہ بات چیت بہت مفید رہی۔ اپنے ہم منصب سے ملاقات کے وقت انھوں نے بھارت مالدیپ دفاعی و تجارتی شراکت داری کو مزید مضبوط بنانے کے بھارت کے عہد کا اعادہ کیا۔

بیان کے مطابق محمد معیزو نے مالدیپ کی ترقیاتی سرگرمیوں میں بھارت کی مسلسل حمایت کی ستائش کی اور بھارت کے ساتھ مالدیپ کے تعلقات کو مضبوط بنانے کا عزم ظاہر کیا۔

وہاں کے وزیرِ دفاع کے ساتھ جے شنکر کی ملاقات مالدیپ سے چین کے بڑھتے فوجی تعاون کے درمیان ہوئی۔ خیال رہے کہ اس وقت چین کی ایک جدید ترین تحقیقی کشتی مالدیپ کے ایک جزیرے پر موجود ہے۔ اس کے علاوہ دونوں ملکوں نے باہمی فوجی معاہدہ بھی کیا ہے۔

عالمی امور کے سینئر تجزیہ کار اسد مرزا کہتے ہیں کہ اس دورے کا مقصد مالدیپ کی معیشت کو مضبوط بنانے کے لیے اس کی مدد کرنا تھا تاکہ چین کے اثرات کو کم کرنے کی کوشش کی جا سکے۔

وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انھوں نے کہا کہ بھارت اور مالدیپ کے درمیان جو چھ معاہدے ہوئے ہیں ان میں ادائیگی کے بھارت کے ایک نظام ’یونیفائیڈ پے منٹ انٹریفس‘ (یو پی آئی) گیٹ وے سسٹم کو مالدیپ میں نافذ کرنا بھی شامل ہے۔

ان کے مطابق اگر اس معاہدے پر عمل درآمد ہو گیا اور وہاں کی حکومت نے اپنے یہاں اس کو نافذ کر دیا تو پھر کوئی ملک مالدیپ کی معیشت سے بھارت کو نہیں نکال پائے گا۔ ان کے مطابق اس کا فائدہ بھارت کو تو ہو گا ہی ان لوگوں کو بھی ہو گا جن کو بھارتی وزیرِ اعظم نریند رمودی کے دوست بتایا جاتا ہے۔

یاد رہے کہ جب محمد معیزو سے میڈیا نمائندوں نے پوچھا کہ انھوں نے انتخابی مہم کے دوران جو آؤٹ انڈیا مہم چلائی تھی وہ اب ختم ہو جائے گی۔ تو انھوں نے گول مول جواب دیتے ہوئے کہا تھا کہ میں ایک ایسی خارجہ پالیسی وضع کروں گا جو مالدیپ کے مفادات کو یقینی بنا سکے۔

'سیاست میں کوئی مستقل دوست یا دُشمن نہیں ہوتا'

اسد مرزا کے مطابق سیاست میں کوئی مستقل دوست ہوتا ہے اور نہ ہی مستقل دشمن۔ اس کا ثبوت نریندر مودی کے تیسری مرتبہ وزیر اعظم کے عہدے کا حلف لینے کی تقریب میں معیزو کی شرکت اور عشائیے میں مودی کی جانب سے معیزو کو اپنی دائیں جانب بٹھانا ہے۔

سینئر تجزیہ کا رپشپ رنجن کہتے ہیں کہ اس وقت کسی بھی پڑوسی ملک سے بھارت کے رشتے اچھے نہیں ہیں۔ خطے میں بنگلہ دیش بھارت کا واحد دوست ملک تھا۔ لیکن اب وہ بھی دوست نہیں رہا۔ لہٰذا مالدیپ سے خراب ہوتے رشتوں کو بہتر بنانے کے لیے وزیر خارجہ نے وہاں کا دورہ کیا۔

وائس آف امریکہ سے گفتگو میں وہ کہتے ہیں کہ یہ دورہ باہمی تعلقات کو پہنچنے والے نقصان کا ازالہ کرنے کے مقصد سے تھا۔ مالدیپ اب بھی کئی محاذوں پر بھارت مخالف نظریے کے تحت کام کر رہا ہے۔

ان کے بقول بھارت کی طرف جھکاؤ کا محمد معیزو کا قدم نمائشی ہے۔ جے شنکر کے دورے میں مالدیپ کے ساتھ کوئی فوجی معاہدہ نہیں ہوا۔ جب کہ چین سے اس کا ایک بڑا فوجی معاہدہ ہو چکا ہے۔

ان کے مطابق بھارت اور مالدیپ میں جو معاہدے ہوئے ہیں وہ اقتصادی نوعیت کے ہیں۔ بھارت ایسے معاہدوں سے چین کے اثر و رسوخ کو کم نہیں کر سکتا۔

وہ کہتے ہیں کہ مالدیپ میں چین کے متعدد منصوبے چل رہے ہیں۔ کوئی بھی منسوخ نہیں کیا گیا ہے اور نہ ہی معیزو سے وہاں کوئی یہ پوچھ رہا ہے کہ آپ نے چین کے ساتھ اتنے معاہدے کیوں کیے۔ ان کے مطابق مالدیپ میں چین کے اثرات کو کم کرنے میں بھارت ناکام رہا ہے۔

اسد مرزا اپنی گفتگو میں وہاں کی معیشت کا ذکر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس وقت محمد معیزو کو صاف نظر آرہا ہے کہ وہاں کی معیشت تباہ ہو چکی ہے۔ اس کے ساتھ معاہدے کر کے چین کو جو فائدہ اٹھانا تھا وہ اس نے اٹھا لیا ہے۔

'بھارت نے مالدیپ کو قرضوں میں بھی مدد دی'

ان کے مطابق مالدیپ کے تعلق سے بھارت کی پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں آئی ہے۔ اس نے گزشتہ سال بھی وہاں کے قومی بجٹ کے خسارے کو پورا کرنے کے لیے مالی مدد دی تھی۔

انھوں نے کہا کہ بھارت نے مالدیپ کو قرضوں کی ادائیگی میں بھی مدد دی ہے۔ اس کے علاوہ مالدیپ کو بھارت کو جو قرض ادا کرنا تھا اس کی مدت میں توسیع کر دی گئی ہے۔

وہ کہتے ہیں کہ بھارت سے تعلقات کشیدہ ہونے کی وجہ سے مالدیپ میں بھارت کے سیاحوں کی تعداد بہت کم ہو گئی۔ حالاں کہ اس سے وہاں کی معیشت کو کافی سہارا ملتا رہا ہے۔ اب معیزو کو یہ بات سمجھ آ گئی ہے۔

واضح رہے کہ دونوں ملکوں میں جو معاہدے ہوئے ہیں ان میں مالدیپ کے 1000 اضافی سول سروینٹس کو صلاحیت سازی کے لیے بھارت میں ٹریننگ دی جائے گی۔ اس کے علاوہ ذہنی صحت، خصوصی تعلیم، اسپیچ تھیراپی اور دیگر منصوبوں کا افتتاح بھی مشترکہ طور پر کیا گیا۔

ایس جے شنکر نے مالدیپ کی حزبِ اختلاف ’مالدیوین ڈیموکریٹک پارٹی‘ (ایم ڈی پی) کے ایک وفد سے بھی اس کے صدر عبد اللہ شاہد کی قیادت میں ملاقات کی۔

عبد اللہ شاہد نے ایک بیان میں کہا کہ موجودہ حکومت نے جارحانہ نعروں اور تضحیک آمیز مہم سے بھارت مخالف جذبات بھڑکائے جس کی وجہ سے مالدیپ کی بین الاقوامی حیثیت میں کمی آئی ہے۔

تاہم انھوں نے بھارت کے ساتھ معیزو حکومت کے مصالحانہ اقدامات کی ستائش کی۔ انھوں نے کہا کہ بھارت ہر بحران کے وقت مالدیپ کا دوست ثابت ہوا ہے اور آگے بھی ہو گا۔

  • 16x9 Image

    سہیل انجم

    سہیل انجم نئی دہلی کے ایک سینئر صحافی ہیں۔ وہ 1985 سے میڈیا میں ہیں۔ 2002 سے وائس آف امریکہ سے وابستہ ہیں۔ میڈیا، صحافت اور ادب کے موضوع پر ان کی تقریباً دو درجن کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ جن میں سے کئی کتابوں کو ایوارڈز ملے ہیں۔ جب کہ ان کی صحافتی خدمات کے اعتراف میں بھارت کی کئی ریاستی حکومتوں کے علاوہ متعدد قومی و بین الاقوامی اداروں نے بھی انھیں ایوارڈز دیے ہیں۔ وہ بھارت کے صحافیوں کے سب سے بڑے ادارے پریس کلب آف انڈیا کے رکن ہیں۔  

فورم

XS
SM
MD
LG