|
ایران کے سپریم لیڈر آیت اللہ علی خامنہ ای نے منگل کے روز نئی حکومت پر زور دیا ہے کہ اسلامی جمہوریہ کے سائبر اسپیس پر کنٹرول نافذ کرے۔ ایران ایک ایسا ملک ہے جہاں پہلے ہی حالیہ برسوں میں انٹرنیٹ پر سخت پابندیاں لگائی جا چکی ہیں۔
خامنہ ای نے نئے صدر مسعود پزشکیان کی نئی کابینہ کے ساتھ اپنی پہلی ملاقات کے دوران کہا کہ قانون کی حکمرانی کے لیے انٹرنیٹ پر کنٹرول نافذ ہونا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر آپ کے پاس انٹرنیٹ کے استعمال اور دائرہ کار کے حوالے سے کوئی قانون موجود نہیں ہے تو آپ ایک قانون بنائیں اور اس قانون کی بنیاد پر انٹرنیٹ پر اپنا کنٹرول حاصل کریں۔
خامنه ای نے یہ تبصرے اس کے باوجود کیے ہیں جب کہ پزشکیان اپنی انتخابی مہم کے دوران ایران میں طویل عرصے سے انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں میں کمی لانے کے وعدے کرتے رہے ہیں۔
ایران میں کئی برس سے انٹرنیٹ کے استعمال پر سخت کنڑول نافذ ہے اور کئی معروف ایپس پر، جن میں فیس بک اور مختصر پیغام رسانی کا پلیٹ فارم ایکس شامل ہے، پابندی عائد ہے۔
انٹرنیٹ پر سخت پابندیوں کے نفاذ کا سلسلہ 2019 میں ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف ہونے والے مطاہروں کے نتیجے میں شروع ہوا تھا۔ عوامی مظاہروں میں مزید شدت 2022 میں مہساامینی کی پولیس کی تحویل میں ہلاکت کے بعد آئی جس کے نتیجے میں سینکڑوں ہلاکتیں اور ہزاروں گرفتاریاں عمل میں آئیں ئیں اور جیل کی سزائیں سنائی گئیں جب کہ کئی افراد کو پھانسیاں بھی ہوئیں۔
مظاہروں پر قابو پانے کے لیے حکومت نے پیغام رسانی کی ویب سائٹس، واٹس ایپ اور ٹیلی گرام کے ساتھ ساتھ انسٹاگرام، ٹک ٹاک اور یوٹیوب کو بھی بلاک کر دیا۔
ایرانیوں نے انٹرنیٹ پر عائد پابندیوں کے اثرات محدود کرنے کے لیے کئی راستے نکال لیے ہیں۔ بہت سے لوگ برسوں سے ورچوئل پرائیویٹ انٹرنیٹ ورکس جسے وی پی این بھی کہا جاتا ہے، استعمال کر رہے ہیں۔
اپنی تقریر کے دوران خامنہ ای نے پیغام رسانی کی ویب سائٹ ٹیلی گرام کے بانی پاول دروف کی فرانس میں گرفتاری کا حوالہ دیا، جن کی پیدائش روس کی ہے۔
خامنہ ای کا کہنا تھا کہ اس بے چارے کو فرانسیسی پکڑ لیتے ہیں وہ آپ کو گرفتار کرتے ہیں۔ جیل میں ڈال دیتے ہیں۔ آپ کو 20 سال قید میں رکھنے کی دھمکی دیتے ہیں، کیونکہ اس نے ان کا قانون توڑا تھا۔
پاول دروف کا ذکر کرنے کے بعد ان کا کہنا تھا ’انتظامی بندوبست کی خلاف ورزی قابل قبول نہیں ہے‘۔
ایران نے حالیہ برسوں میں کہا ہے کہ واٹس ایپ اور انسٹاگرام کو صرف اسی صورت میں ایران میں کام کرنے کی اجازت دی جائے گی اگر ان کا کوئی قانونی نمائندہ اس ملک میں موجود ہو گا۔
لیکن فیس بک، انسٹاگرام اور واٹس ایپ کی مالک کمپنی میٹا نے کہا کہ اس کا ایران میں اپنا دفتر کھولنے کا کوئی منصوبہ نہیں ہے۔
( اس رپورٹ کی تفصیلات اے ایف پی سے لی گئیں ہیں)
فورم