|
اسرائیلی فوج نے کہا ہے کہ اس نے منگل کو غزہ میں ایک "پیچیدہ آپریشن" کے بعد ایک اسرائیلی یرغمال کو بازیاب کرا لیا۔ فوج نے ایک بیان میں کہا کہ 52 سالہ اسرائیلی بدو، قائد القاضی کو فلسطینی عسکریت پسندوں نے 7 اکتوبر کو اسرائیل پر حماس کے حملے کے دوران اغوا کیا تھا۔
یہ بازیابی ایسے میں ہوئی ہے جب کہ اسرائیل اور حماس کے درمیان جاری جنگ اب اپنے 11 ویں ماہ میں ہے اور اس کے خاتمے کے کوئی آثار نہیں دکھائی دے رہے۔
فوج نے کہا کہ القاضی کو غزہ کی پٹی کے جنوبی علاقے میں ایک پیچیدہ آپریشن میں رہا کرایا گیا"۔ "ان کی صحت ٹھیک ٹھاک ہے اورانہیں میڈیکل چیک اپ کے لیے اسپتال منتقل کیا جا رہا ہے۔
القاضی بنیادی طور پر عرب قصبے راحت کے رہائشی ہیں اور 7 اکتوبر کو جب انہیں عسکریت پسندوں نے پکڑا تو وہ اس وقت جنوبی اسرائیل میں ایک گودام میں گارڈ کے طور پر کام کر رہے تھے ۔
اسرائیل کے چینل 12 نے القاضی کے اہل خانہ کو ایک اسپتال میں بھاگتےہوئے دکھایا جہاں انہیں اس کے بعد لایا گیا تھا جب انہوں نے یہ خبر سنی کہ القاضی کو رہا کرایا جا چکا ہے ۔
اسرائیلی وزیر دفاع یوو گیلنٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک بیان میں کہا، "ہم یرغمالوں کو ان کے گھروں میں واپس لانے کے ہر موقع سے فائدہ اٹھانے کے لیے پرعزم ہیں۔"
یرغمالوں اور لا پتہ افرادکے اسرائیلی گروپ ، "ہوسٹیجیز اینڈ مسسنگ فیملیز فورم" نے کہا ہے کہ القاضی کی بازیابی "معجزانہ" تھی۔
گروپ نے اس بات پر زور دیتے ہوئےکہ صرف کوئی جنگ بندی ہی دوسرے اسیروں کی واپسی کو یقینی بنا سکتی ہے کہا،"تاہم، ہمیں یہ یاد رکھنا چاہیے کہ صرف فوجی کارروائیاں ہی باقی یرغمالوں کو آزاد نہیں کرا سکتیں، جو 326 روز سے بدسلوکی اور دہشت گردی کا شکار ہیں۔"
گروپ کا کہنا تھا کہ’’ مذاکرات کے ذریعے طے پانے والاکوئی معاہدہ ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے۔‘‘
گروپ نے کہا، "ہم بین الاقوامی برادری سے فوری طور پر مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ حماس پر مجوزہ معاہدے کو قبول کرنے اور تمام یرغمالوں کی رہائی کے لیے دباؤ برقرار رکھے۔"
اسرائیلی حکومت کے ترجمان ڈیوڈ مینسر سے ایک آن لائن بریفنگ میں جب یرغمالوں کی رہائی سے متعلق معاہدےکے مطالبے کےبارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا: "یہ بالکل ویسا ہی ہے جو ہم سفارت کاری کے ذریعے کر رہے ہیں، لیکن فوجی طریقوں سے بھی۔"
انہوں نے کہا کہ "یہ واضح ہے کہ حماس ان مذاکرات کو صرف اس وقت سنجیدگی سے لیتا ہے جب وہ فوجی دباؤ میں ہوتے ہیں ۔ ہمیں معلوم ہے کہ یہ بات سچ ہے۔"
جنگ بندی مذاکرات
اسی دوران امریکہ نے غزہ میں جنگ بندی اور باقی ماندہ یرغمالوں کی رہائی کی کوششوں کے حوالے سے پیر کے روز محتاط انداز میں امید کا اظہار کیا۔
یرغمالوں کا مستقبل قاہرہ میں جاری جنگ بندی کے مذاکرات میں مرکزی موضوع ہے جبکہ ان کے رشتے دار اور حامی ہفتے وار مظاہروں میں ان کی گھر واپسی کا مطالبہ کرتے ہوئے اسرائیلی حکومت پر دباؤ بڑھا رہے ہیں۔
واشنگٹن میں قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے پیر کو نامہ نگاروں کو بتایا کہ پیش رفت جاری ہے اور یہ کہ مذاکرات جاری رہیں گے اور ان میں ورکنگ گروپ کئی دن تک مصروف رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ جمعرات کی شام کو شروع ہونے والے ابتدائی مذاکرات "تعمیری نوعیت کے تھے"، انہوں نے مزید کہا کہ یہ اطلاعات غلط ہیں کہ سفارت کاری ختم ہونے والی تھی۔
بات چیت کا ایک اہم نکتہ اسرائیل کا غزہ-مصر سرحد کے ساتھ فلاڈیلفی کوریڈور نامی راہداری پر کنٹرول برقرار رکھنے پر اصرار رہا ہے تاکہ حماس کو دوبارہ مسلح ہونے سے روکا جا سکے، عسکریت پسند گروپ حماس نے اسے قبول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
مصر ی حکومت سے منسلک القاہرہ نیوز نے ایک اعلی سطحی ذریعے کے حوالے سے رپورٹ دی ہےکہ قاہرہ نےجو قطر اور امریکہ کے ساتھ مذاکرات میں ثالثی کر رہا ہے، پیر کو اس پر زور دیاکہ "وہ راہداری کے ساتھ کسی بھی اسرائیلی موجودگی کو قبول نہیں کرے گا۔"
فلسطینی عسکریت پسند گروپ حماس کے نمائندے، قاہرہ مذاکرات میں حصہ نہیں لے رہے۔
حماس کے ایک عہدےدار، حسام بدران نے جمعے کو اے ایف پی کو بتایا تھا کہ اسرائیلی وزیر اعظم بنجمن نیتن یاہو کا یہ اصرار کہ ان کی فوجیں غزہ-مصر کی سرحد کے ساتھ ایک زمینی پٹی پر برقرار رہیں، جسے فلاڈیلفی کوریڈور کہا جاتا ہے، " کسی حتمی معاہدے تک پہنچنے سے ان کے انکار" کی عکاسی کرتا ہے ۔
10 ماہ سے زیادہ عرصےسے جاری جنگ میں اب تک صرف ایک جنگ بندی ہوئی ہے جو 24 نومبر سے شروع ہونے والے ایک ہفتے تک جاری رہی تھی۔
اس ایک ہفتے کے دوران 240 فلسطینی قیدیوں کے بدلے 105 یرغمالوں کو رہا کیا گیا تھا ۔
حماس کے عسکریت پسندوں نے سات اکتوبر کو جنوبی اسرائیلی کمیونٹیز پر ایک دہشت گرد حملہ کیا، جس کے نتیجے میں 1,199 افراد ہلاک ہوئے، اور 251 کو یرغمال بنایا گیا ۔ ان میں سے 104 ابھی تک غزہ میں قید ہیں ، ان میں سے 34 فوجی ہلاک ہو چکے ہیں ۔
حماس کے زیر انتظام علاقے کی وزارت صحت کے مطابق، اس کے بعد سے اسرائیل کی جوابی فوجی مہم میں غزہ میں کم از کم 40,476 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
اقوام متحدہ کے حقوق کے دفتر کے مطابق مرنے والوں میں زیادہ تر خواتین اور بچے تھے۔
اس رپورٹ کامواداےایف پی سےلیا گیا ہے۔
فورم