رسائی کے لنکس

طالبان کے اقتدار کے بعد جرمنی سے پہلی مرتبہ افغان باشندوں کی ملک بدری


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • جرمنی نے 28 افغان شہریوں کو ملک بدر کیا ہے۔
  • جرمنی کے حکام کے مطابق یہ سب افغان شہری سزا یافتہ مجرم تھے۔
  • ملک بدری اس لیے ضروری تھی کہ قانون کی حکمرانی پر اعتماد برقرار رہے: جرمن وزیرِ داخلہ
  • رپورٹس کے مطابق ملک بدر کیے گئے افغان شہریوں کو فی کس ایک ہزار یورو دیے گئے۔

جرمنی نے طالبان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ تارکینِ وطن کو واپس افغانستان نہ بھیجنے کی اپنی پالیسی تبدیل کردی ہے۔

جرمن حکام نے 28 ایسے افغان شہریوں کو کابل کی پرواز پر سوار کیا ہے جو حکام کے بقول "سزا یافتہ مجرم" تھے۔

سن 2021 میں طالبان کے افغانستان کے اقتدار سنبھالنے کے بعد جرمنی نے افغانستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کی شکایات کے باعث افغان باشندوں کی ملک بدری روک دی تھی۔

حکومتی ترجمان اسٹیفن ہیبسٹریٹ نے ایک بیان میں کہا کہ یہ سب افغان شہری اور سزا یافتہ مجرم تھے جنہیں جرمنی میں رہنے کا حق نہیں تھا۔ ان لوگوں کے خلاف ملک بدری کے احکامات جاری کیے گئے تھے۔

جرمن حکومت کے ترجمان نے ان افراد کے جرائم کی نوعیت نہیں بتائی۔ تاہم جرمن خبر رساں ادارے 'ڈی پی اے' نے ملک بدری میں شامل وفاقی ریاستوں کی معلومات کا حوالہ دیتے ہوئے رپورٹ کیا کہ ان جرائم میں ریپ، آتش زنی اور قتل شامل ہیں۔

جرمنی اور طالبان کے درمیان سفارتی تعلقات نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ حکومت کو ملک بدری کے لیے اپنے شراکت داروں کی ضرورت پیش آئی۔

حکومتی ترجمان اسٹیفن ہیبسٹریٹ کے مطابق جرمنی نے ملک بدری کو آسان بنانے کے لیے اہم علاقائی شراکت داروں سے مدد کے لیے کہا تھا۔

جرمن نیوز میگزین دیاش پیگل نے سیکیورٹی ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ قطر ایئرویز کی ایک چارٹرڈ فلائٹ کابل کے لیے روانہ ہوئی جس میں 28 افغان باشندے سوار تھے۔

میگزین نے رپورٹ کیا کہ یہ آپریشن دو ماہ کے 'خفیہ مذاکرات' کا نتیجہ ہے جس میں قطر نے برلن اور طالبان حکام کے درمیان ثالث کا کردار ادا کیا۔

افغان نیوز رپورٹس کے مطابق ملک بدر کیے گئے افغان شہریوں کو روانگی سے قبل فی کس ایک ہزار یورو دیے گئے۔

جمعے کو کی گئی ملک بدری ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب جرمنی میں غیر قانونی ہجرت کو روکنے، خطرناک اور سزا یافتہ پناہ کے متلاشی افراد کے خلاف سخت کارروائی کے مطالبات بڑھ رہے ہیں۔

یہ مطالبات تارکینِ وطن مشتبہ افراد کی جانب سے ہائی پروفائل جرائم کے بعد سامنے آئے ہیں۔

واضح رہے کہ جرمنی میں حالیہ دنوں میں چاقو کے حملے کے واقعات رپورٹ ہوئے ہیں۔ گزشتہ ہفتے سولنگن کے ایک اسٹریٹ فیسٹیول میں تین افراد کو قتل کر دیا گیا تھا۔ یہ حملہ مبینہ طور پر ایک 26 سالہ شامی شخص نے کیا تھا جس کے داعش سے روابط تھے۔

مشتبہ شخص کو ہفتوں قبل بلغاریہ ڈی پورٹ کیا جانا تھا لیکن حکام کی جانب سے اس کی تلاش میں ناکامی پر یہ آپریشن مکمل نہ ہو سکا۔

اس سے قبل مئی میں ایک 25 سالہ افغان شہری پر جرمنی کے مین ہائیم شہر میں پولیس افسر کو چاقو سے ہلاک کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

اس خبر میں شامل معلومات خبر رساں ادارے 'ایسوسی ایٹڈ پریس' اور 'اے ایف پی' سے لی گئی ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG