رسائی کے لنکس

پاکستان کا بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے ساتھ پہلا باضابطہ سیاسی رابطہ


  • وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے سربراہ کے ساتھ بات چیت کے دوران تجارتی تعلقات، ثقافتی تبادلوں اور عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔
  • شہباز شریف نے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی اہمیت پر زور دیا۔
  • دونوں رہنماؤں نے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے، وزیرِ اعظم ہاؤس کا بیان

ویب ڈیسک _ پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کے چیف ایڈوائزر ڈاکٹر محمد یونس سے ٹیلی فون پر رابطہ کیا ہے اور انہیں عہدہ سنبھالنے پر مبارک باد دیتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کی خواہش ظاہر کی ہے۔

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جمعے کو جاری ایک بیان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے بنگلہ دیش میں حالیہ سیلاب سے ہونے والی تباہی پر بنگلہ دیش کی عبوری حکومت اور عوام سے ہمدردی کا اظہار بھی کیا۔

بنگلہ دیش کے حالیہ سیاسی بحران اور عبوری حکومت کے قیام کے بعد وزیرِ اعظم شہباز شریف کی جانب سے بنگلہ دیشی قیادت کے ساتھ یہ پہلا باضابطہ سیاسی رابطہ ہے۔

اس سے قبل شہباز شریف نے ڈاکٹر یونس کو بذریعہ خط سیلاب متاثرین کی مدد کے لیے تعاون کی پیش کش کی تھی۔

بنگلہ دیش کی معزول وزیرِ اعظم شیخ حسینہ کے دور میں اسلام آباد اور ڈھاکہ کے تعلقات محدود تھے اور ان میں کبھی گرم جوشی نہیں رہی تھی۔ تاہم وزیرِ اعظم شہباز شریف نے جمعے کو ڈاکٹر یونس سے ٹیلی فون پر بات کرتے ہوئے دونوں ملکوں کے درمیان مختلف شعبوں میں تعاون بڑھانے کے ذریعے دوطرفہ تعلقات کو مزید بہتر کرنے کی اہمیت پر زور دیا ہے۔

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف نے دونوں ملکوں کے درمیان تاریخی، مذہبی اور ثقافتی رشتوں کا ذکر کرتے ہوئے تجارتی تعلقات، ثقافتی تبادلوں اور عوام کے درمیان رابطوں کو فروغ دینے کی خواہش کا اظہار کیا۔

شہباز شریف نے بنگلہ دیشی قیادت کے ساتھ ایسے موقع پر رابطہ کیا ہے جب امریکہ میں موجود شیخ حسینہ کے بیٹے سجیب واجد جوئے اپنی والدہ کی حکومت کے خاتمے کا الزام پاکستان کی خفیہ ایجنسی 'آئی ایس آر' پر عائد کر رہے تھے۔

بنگلہ دیش میں طلبہ تحریک کے پرتشدد احتجاج اور وزیرِ اعظم ہاؤس کی جانب مارچ کے بعد شیخ حسینہ پانچ اگست کو ملک چھوڑ کر بھارت منتقل ہو گئی تھیں اور وہ اب بھی وہیں مقیم ہیں۔

سجیب واجد نے کئی ذرائع ابلاغ سے بات کرتے ہوئے دعویٰ کیا تھا کہ بنگلہ دیش میں اچانک خراب ہونے والے حالات کے پسِ پردہ انہیں شک ہے کہ آئی ایس آئی کا ہاتھ ہے۔ تاہم حکومتِ پاکستان نے اس طرح کے کسی بھی الزام پر کوئی بیان جاری نہیں کیا تھا۔

بنگلہ دیش میں سیاسی تبدیلی پر بھی حکومتِ پاکستان نے خاموشی ہی اختیار کی تھی۔ اب جب کہ بنگلہ دیش کی عبوری حکومت نے انتظامِ حکومت سنبھالتے ہوئے اپنا کام شروع کر دیا ہے، تو ایسے میں پاکستان کی جانب سے بھی باقاعدہ طور پر رابطے شروع کر دیے ہیں۔

وزیرِ اعظم ہاؤس سے جاری بیان کے مطابق وزیرِ اعظم شہباز شریف اور ڈاکٹر یونس نے اتفاق کیا ہے کہ پاکستان اور بنگلہ دیش کے عوام کی ترقی اور خوش حالی کے لیے مل کر کام کرنے کی ضرورت ہے جب کہ وسیع تر علاقائی تعاون جنوبی ایشیا کے لوگوں کی زندگیوں کو بہتر بنانے میں اہم کردار ادا کر سکتا ہے۔

سن 1971 میں پاکستان سے علیحدہ ہونے کے بعد بنگلہ دیش کا قیام عمل میں آیا تھا اور اس وقت کے بعد سے دونوں ملکوں کے تعلقات بہت خوش گوار نہیں رہے تھے۔

ماہرین نے امید ظاہر کیا ہے کہ شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے سے امید پیدا ہوئی ہے کہ پاکستان کے بنگلہ دیش کے ساتھ تعلقات میں بہتری آئے گی۔

شیخ حسینہ کی حکومت کے خاتمے کے بعد پاکستان کے دفترِ خارجہ نے بھی ایک بیان میں کہا تھا کہ حکومتِ پاکستان اور عوام بنگلہ دیش کے عوام کے ساتھ کھڑے ہیں اور ان سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہیں اور بنگلہ دیش میں حالات پرامن انداز میں معمول پر آنے کی امید رکھتے ہیں۔

فورم

XS
SM
MD
LG