|
نئی دہلی -- بھارتی وزیرِ اعظم نریندر مودی 21 سے 23 ستمبر تک امریکہ کا تین روزہ سرکاری دورہ کر رہے ہیں۔ جہاں وہ 'کواڈ' اجلاس میں شرکت اور اقوامِ متحدہ کے جنرل اسمبلی اجلاس سے خطاب کریں گے۔
کواڈ اجلاس 21 ستمبر کو ڈیلاویئر میں امریکی صدر جو بائیڈن کی میزبانی میں ہو گا۔ یہ پہلا موقع ہے جب صدر بائیڈن اپنے ہوم ٹاؤن میں غیر ملکی رہنماؤں کی میزبانی کریں گے۔ اسی کے ساتھ وہ بحیثیت صدر کواڈ اجلاس کی آخری میزبانی بھی کریں گے اس لیے اسے بہت اہم سمجھا جا رہا ہے۔
اس موقع پر امریکی اور بھارتی حکومت کی جانب سے جاری ہونے والے بیانات کے مطابق اجلاس میں انڈو پیسفک خطے کے ملکوں کے مسائل اور ان میں باہمی تعاون میں اضافے پر تبادلۂ خیال ہو گا۔ لیکن ایسا سمجھا جاتا ہے کہ یوکرین تنازع پر بھی گفتگو ہو گی۔
نئی دہلی کے تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ بھارتی وزیرِ اعظم دورے کے دوران یوکرین جنگ کے حوالے سے کوئی تجویز پیش کر سکتے ہیں۔ واضح رہے کہ وزیرِ اعظم مودی نے رواں برس روس اور یوکرین کے دورے بھی کیے ہیں۔
اجلاس میں صدر بائیڈن اور وزیرِ اعظم مودی کے ساتھ ساتھ جاپان کے وزیرِ اعظم فومیو کشیدا اور آسٹریلیا کے وزیرِ اعظم انتھونی البانیز بھی شرکت کر رہے ہیں۔ 2025 میں کواڈ کا اجلاس بھارت میں ہو گا۔
وائٹ ہاؤس کے ترجمان جان کربی کے مطابق اجلاس کے ایجنڈے میں چین سرِفہرست ہو گا۔ ان کے مطابق اگر ’پیپلز ریپبلک آف چائنا‘ (پی آر سی) کی جارحانہ فوجی کارروائی سے خطے کو درپیش چیلنجز پر گفتگو نہیں ہوگی تو یہ غیر ذمہ دارانہ بات ہو گی۔
اس کے علاوہ ایجنڈے میں صحت سیکیورٹی، ملٹری سیکیورٹی، قدرتی آفات پر اقدامات، بنیادی ڈھانچہ، ابھرتی ہوئی ٹیکنالوجیز، ماحولیات، صاف توانائی اور سائبر سیکیورٹی بھی شامل ہیں۔
بھارتی وزارتِ خارجہ کے مطابق کواڈ کے رہنما گزشتہ ایک سال کے دوران گروپ کی پیش رفت کا جائزہ لیں گے اور انڈوپیسفک خطے کے ممالک کو ان کے ترقیاتی اہداف اور خواہشات کو پورا کرنے میں مدد کے لیے ایک سال کا ایجنڈا طے کریں گے۔
'بائیڈن اپنے دور میں یوکرین تنازع حل کرنا چاہتے ہیں'
بعض تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ جو بائیڈن اپنی مدتِ صدارت کے خاتمے سے قبل یوکرین تنازع کو حل کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے وہ پہلے ہی ایک امن فارمولہ پیش کر چکے ہیں۔ لیکن اس بارے میں یقین سے نہیں کہا جا سکتا کہ کواڈ کے اجلاس میں اس امن فارمولے پر تبادلۂ خیال ہو گا یا نہیں۔
بین الاقوامی امور کے سینئر تجزیہ کار کلول بھٹاچاریہ کہتے ہیں کہ اس سے پہلے بھی کواڈ کے اجلاس میں یوکرین تنازع کے حل پر تبادلۂ خیال ہوا ہے۔ لہٰذا اس اجلاس میں بھی اس مسئلے پر گفتگو ہو سکتی ہے۔
وہ یہ بھی مانتے ہیں کہ کواڈ حقیقتاً انڈوپیسفک کے مسائل کے حل کے لیے بنایا گیا ہے اور اس کے ایجنڈے میں خطے میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنا بھی ایک پہلو ہے۔ تاہم اسے بھی ذہن میں رکھنا ہو گا کہ یوکرین جنگ شروع ہونے کے بعد روس اور چین میں دوستی گہری ہوتی جا رہی ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں انھوں نے کہا کہ کواڈ کے اجلاس میں یوکرین جنگ اور اس کے نتیجے میں دنیا پر پڑنے والے اثرات پر بھی تبادلۂ خیال ہو سکتا ہے۔
اس کے علاوہ وزیرِ اعظم مودی اپنے روس اور یوکرین کے دورے اور روسی صدر ولادیمیر پوٹن اور یوکرین کے صدر زیلنسکی سے اپنے مذاکرات کے تجربات سے دیگر رکن ملکوں کو باخبر کریں گے۔
اس سوال پر کہ کیا جو بائیڈن اپنے امن فارمولے کو اجلاس میں پیش کریں گے اور کیا ان کی مدتِ صدارت کے اندر یوکرین تنازع حل ہو سکتا ہے؟ ان کا کہنا تھا کہ اگر امریکہ کی تاریخ پر نظر ڈالیں تو پائیں گے کہ اگر کوئی عالمی بحران ہے اور اس کا تعلق امریکی پالیسی سے بھی ہے تو صدر کی مدت کے خاتمے سے قبل اسے حل کر لیا گیا ہے۔
وہ اس سلسلے میں 1981 میں ایران کے ہاتھوں 53 امریکی سفارت کاروں اور شہریوں کو یرغمال بنائے جانے کی مثال پیش کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ صدر جمی کارٹر جب تک اپنے عہدے پر رہے یرغمالوں کو رہا نہیں کرا پائے۔ لیکن رونلڈ ریگن کی حلف برداری سے ایک روز قبل ایران کے ساتھ سمجھوتہ کر لیا گیا۔
کیا مودی کوئی امن فارمولہ پیش کر سکتے ہیں؟
وہ کہتے ہیں کہ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اگر یوکرین کا تنازع ابھی حل نہیں ہوا تو جنوری میں نئے صدر کی حلف برداری سے قبل اس کے حل ہونے کی امید ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں اسد مرزا کا کہنا تھا کہ چوں کہ صدر بائیڈن کی مدتِ صدارت ختم ہو رہی ہے اور وہ اگلا انتخاب بھی نہیں لڑ رہے ہیں، اس لیے وہ چاہتے ہیں کہ اپنا کوئی ورثہ چھوڑ کر جائیں۔
ان کے مطابق چوں کہ وزیرِ اعظم مودی ہمیشہ کوئی نہ کوئی نئی بات کہنے کے خواہش مند رہتے ہیں اس لیے ایسا ہو سکتا ہے کہ وہ اجلاس کے دوران کواڈ کے لیے کوئی نیا ایجنڈا پیش کریں۔
ان کا خیال ہے کہ اجلاس کے دوران یوکرین تنازع پر گفتگو کا امکان کم ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ یوکرین تنازع کواڈ کے دائرے میں نہیں آتا۔ ان کے خیال میں مودی بھی کوئی فارمولہ پیش نہیں کریں گے۔
وہ کہتے ہیں کہ مودی نے جس طرح صدر زیلنسکی سے ملاقات کی، ان کو گلے لگایا اور ان سے مذاکرات کیے اس پر پوٹن نے اپنی ناراضگی ظاہر کی تھی جس کے بعد مودی کو قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول کو ماسکو بھیجنا پڑا۔
یاد رہے کہ اجیت ڈوول نے گزشتہ دنوں برکس ممالک کے قومی سلامتی کے مشیروں کے اجلاس میں شرکت کی غرض سے ماسکو کا دورہ کیا تھا اور 12 ستمبر کو صدر پوٹن سے ملاقات کر کے مودی کے دورہ کیف اور زیلنسکی سے ہونے والے مذاکرات کے بارے میں بریف کیا تھا۔
میڈیا رپورٹس میں ذرائع کے حوالے سے کہا گیا تھا کہ اجیت ڈوول کے دورے کا مقصد یوکرین تنازع کو حل کرنا تھا۔ اس کے لیے وہ وزیرِ اعظم مودی کا امن فارمولہ لے کر گئے تھے۔
لیکن اسد مرزا کہتے ہیں کہ دراصل اس کا دورے کا ایک مقصد پوٹن کی ناراضگی کو کم کرنا بھی تھا۔ کلول بھٹاچاریہ کے مطابق روسی میڈیا نے اجیت ڈوول اور پوٹن کی ملاقات کی تصاویر عام کر دی تھیں۔
مبصرین کے مطابق جہاں تک کواڈ میں بھارت اور امریکہ کے درمیان ہم آہنگی کی بات ہے تو مختلف امور پر دونوں میں اختلافِ رائے ہے۔ بنگلہ دیش اور میانمار کے معاملات بھی ان میں شامل ہیں۔
اسد مرزا کہتے ہیں کہ امریکہ چاہتا ہے کہ بھارت انڈو پیسفک میں چین کی بڑھتی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے زیادہ سرگرم کارروائی کرے۔ لیکن بھارت اس سلسلے میں زیادہ پیش رفت نہیں کر رہا ہے۔
وزیرِ اعظم نریندر مودی کواڈ اجلاس میں شرکت کے علاوہ 22 ستمبر کو امریکی شہر نیویارک میں بھارتی برادری کے لوگوں سے اور 23 ستمبر کو اقوامِ متحدہ جنرل اسمبلی کے اجلاس سے خطاب کریں گے۔
وہ بھارت اور امریکہ کے درمیان مصنوعی ذہانت، سیمی کنڈکٹر اور بائیو ٹیکنالوجی کے شعبوں میں وسیع تر تعاون کو تیز کرنے کے مقصد سے سرکردہ امریکی کمپنیوں کے سربراہوں کے ساتھ ایک اجلاس بھی کریں گے۔
فورم