|
امریکہ نے جمعرات کو کہا کہ وہ اب بھی اسرائیل اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات کو معمول پر لانے کے ایک تاریخی معاہدے کے لیے کام کر رہا ہے جبکہ ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان ایک فلسطینی ریاست کے قیام پر ثابت قدم نظر آتے ہیں۔
اب جب صدر جو بائیڈن کی مدت ملازمت میں چار ماہ باقی رہ گئے ہیں ، ولی عہد شہزادہ محمد بن سلمان نے بدھ کو کہا کہ سعودی عرب "ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کے لیے کام کرے گا جس کا دارالحکومت مشرقی یروشلم ہو، اور ہم تصدیق کرتے ہیں کہ سلطنت ایسی ریاست کے قیام کے بغیر اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم نہیں کرے گی ۔‘‘
محکمہ خارجہ نے ان کے بیان کو زیادہ اجاگر نہ کرتے ہوئےکہا کہ سعودی عرب ایک طویل عرصے سے واضح کر چکا ہے کہ وہ دو ریاستی حل اور غزہ میں جنگ بندی چاہتا ہے۔
محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر نے صحافیوں کو بتایا کہ "ہر دن جو گزرتا ہے، اس میں کسی بھی مقصد کاحصول مشکل تر ہو جاتا ہے ۔ یہ وقت کی ایک حقیقت ہے۔"
انہوں نے کہا، "تاہم، ہم ابھی تک اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ، بلاشبہ سعودی عرب اور اسرائیل کے درمیان تعلقات کوآخر کار معمول پر لانا دونوں ملکوں اور خطے کے مفاد میں ہے"
انہوں نے کہا کہ "ہم واضح طور پر ان چیلنجوں سے بخوبی واقف ہیں جو ہمیں ان (اہداف) کے حصول میں درپیش ہیں ۔ غزہ میں لڑائی مسلسل جاری ہے۔ ہم جنگ بندی کے لیے کام جاری رکھے ہوئے ہیں۔"
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے اس ماہ کے شروع میں کہا تھا کہ ان کا ابھی تک یہ ہی خیال ہے کہ جنوری میں بائیڈن کے عہدہ چھوڑنے سے پہلے سعودی اسرائیل معاہدہ ممکن ہے۔
بلنکن نے سعودی عرب کے ساتھ تعلقات معمول پر آنے کے امکان کو نیتن یاہو کے لیے ایک ترغیب کے طور پر پیش کیا ہے، جو فلسطینی ریاست کے ایک تاریخی نقاد ہیں اور جنہوں نے غزہ جنگ سے قبل عرب دنیا کی طرف سے اسرائیل کی بڑھتی ہوئی قبولیت کو ایک اہم کامیابی قرار دیا تھا۔
متحدہ عرب امارات، بحرین اور مراکش نے 2020 میں اسرائیل کے ساتھ معمول کے تعلقات بحال کر لیے تھے ۔۔ وہ کئی دہائیوں قبل مصر اور اردن کے بعد ایسا کرنے والی پہلی عرب ریاستیں تھیں۔
لیکن سعودی عرب کو اسلام کے دو مقدس ترین شہروں کے محافظ کے طور پر اس کے کردار اور عرب اور اسلامی دنیا میں اس کے اثر و رسوخ کی وجہ سے اسرائیل کے لیے ایک کلیدی ملک سمجھا جاتا ہے ۔
اس رپورٹ کا مواد اے ایف پی سے لیا گیاہے۔
فورم