رسائی کے لنکس

بلوچستان لبریشن آرمی کی دکی میں کان کنوں پر حملے میں ملوث ہونے کی تردید


فائل فوٹو
فائل فوٹو

  • علیحدگی پسند تنظیم بلوچستان نے کہا ہے کہ اس کا دکی میں کان کنوں پر ہونے والے حملے سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
  • بی ایل اے نے اپنے بیان میں حملے کی مذمت بھی کی ہے۔
  • ضلع دکی میں کوئلے کی کانوں پر ایسے وقت میں حملہ ہوا جب پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس ہونے والا ہے۔

ویب ڈیسک—عسکری تنظیم بلوچستان لبریشن آرمی (بی ایل اے) نے کہا ہے کہ وہ دکی میں کان کنوں پر ہونے والے حملے میں ملوث نہیں ہے اور وہ اس پرتشدد کارروائی کی مذمت کرتی ہے۔

بلوچستان کے ضلع دکی میں درجنوں مسلح افراد کے جمعے کو کیے گئے حملے میں کم از کم 21 کان کن ہلاک ہوگئے تھے۔

بی ایل اے نے ایک ای میل میں اس حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’’ بلوچستان لبریشن آرمی دکی میں 21 پشتون مزدورں کے قتل عام کی مذمت کرتی ہے اور واضح کرنا چاہتی ہے کہ اس المناک واقعے میں وہ ملوث نہیں ہے۔‘‘

دکی میں جنید کول کمپنی کے تحت کوئلے کی کانوں پر حملے کی ذمے داری تاحال کسی گروپ نے تسلیم نہیں کی ہے۔

بلوچستان کے ضلع دکی میں ہونے والا یہ حملہ ایسے وقت ہوا ہے جب پاکستان میں شنگھائی تعاون تنظیم کا اجلاس منعقد ہونے والا ہے۔

بی ایل اے بلوچستان کی آزادی کا مطالبہ کرتی ہے۔ اس کا شمار جنوبی ایشیا میں نسلی بنیادوں پر علیحدگی پسندی کی تحریک چلانے والے بڑی تنظیموں میں ہوتا ہے جو دہائیوں سے حکومت کے لیے چیلنج بنی ہوئی ہے۔ بی ایل اے کا کہنا ہے کہ حکومت پاکستان بلوچستان کے قدرتی وسائل کا غیر منصفانہ استعمال کر رہی ہے۔

بلوچستان میں کان کنی کے کئی منصوبے جاری ہیں جن میں رکو ڈک بھی شامل ہے جو بیرک گولڈ نامی کمپنی چلا رہی ہے۔ رکو ڈیک کو دنیا میں سونے کی بڑی کانوں میں شمار کیا جاتا ہے۔ چین بھی بلوچستان میں سونے اور تانبے کی کانوں پر کام کر رہا ہے۔

ضلع دکی میں کوئلے کے کان کنوں کو ہلاک کرنے کے لیے ہونے والے حملے کے دن ایک سعودی وفد بھی پاکستان کے دورے پر تھا جس نے رکو ڈک میں سرمایہ کاری کے لیے دلچپسی کا اظہار کیا تھا۔

پاکستان کان کنی کے منصوبوں کو اپنی معاشی بحران کے حل کے لیے انتہائی اہم قرار دیتا ہے۔

اس خبر میں شامل معلومات ’رائٹرز‘ سے لی گئی ہیں۔

XS
SM
MD
LG