|
"مجھے پاکستان میں رہتے ہوئے 40 سال ہو گئے ہیں۔ میری پیدائش پشاور میں ہوئی۔ ہم پردہ دار لوگ ہیں۔ لیکن گزشتہ روز پولیس جب گھر میں داخل ہوئی تو ایسا محسوس ہوا جیسے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔"
یہ کہنا ہے پاکستان میں موجود افغان خاتون زرکئی بی بی کا، جنہیں گزشتہ دنوں ایک کارروائی کے دوران بچوں سمیت پولیس اسٹیشن لے جایا گیا تھا۔
زرکئی بی بی کے مطابق یہ واقعہ ان کے خاندان کے لیے کسی دھچکے سے کم نہیں تھا کیوں کہ وہ اب معاشرے میں مشکوک ہو کر رہ گئی ہیں اور پولیس کے اس اقدام نے ان کے گھر کی چار دیواری اور عزت پر سوالیہ نشان کھڑا کر دیا ہے۔
واضح رہے کہ گزشتہ سال نومبر میں وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے کہا تھا کہ اسلام آباد میں مقیم تمام افغان شہریوں کے لیے ڈپٹی کمشنر آفس سے این او سی حاصل کرنا لازمی ہوگا۔
حکومتی ہدایات کے مطابق یہ اقدام سیکیورٹی اور انتظامی معاملات کو بہتر بنانے کے لیے اٹھایا گیا ہے۔
زرکئی بی بی کہتی ہیں کہ مغرب کے وقت پہلے ایک خاتون پولیس اہلکار ان کے گھر آئیں اور کہا کہ کچھ ضروری کاغذات پر انگوٹھا لگانے کے لیے باہر آئیں۔ لیکن جیسے ہی وہ باہر نکلیں، انہیں زبردستی ایک گاڑی میں بٹھا دیا گیا۔ اس کے بعد ان کے بچوں اور بچیوں کو بھی گاڑی میں بٹھا کر پولیس اسٹیشن لے جایا گیا جہاں پہلے سے 20 سے زائد افغان شہری موجود تھے۔
وہ کہتی ہیں کہ پولیس اسٹیشن پہنچنے کے بعد ان کے اور ان کے بچوں کے لیے صورتِ حال نہایت خوفناک تھی۔
"ہم نے کبھی اپنی زندگی میں ایسا ماحول نہیں دیکھا تھا۔ وہاں ہم سے عجیب و غریب سوالات کیے جا رہے تھے۔ افغان سٹیزن شپ کارڈ ہونے کے باوجود مطلع کیا گیا کہ بارڈر پاس بنوا کر زبردستی افغانستان بھیجا جائے گا۔"
زرکئی بی بی کے بقول انہوں نے پولیس کو بتایا کہ وہ اپنی جوان بیٹیوں کو اس سرد موسم میں کہاں لے کر جائیں گی۔
وہ کہتی ہیں کہ انہیں رات گئے کچھ افغان اور پاکستانی عمائدین کی ضمانت کے بعد رہائی ملی۔ لیکن اس واقعے کے بعد بچے خوف کا شکار ہیں اور جب باہر پولیس کو دیکھتے ہیں تو اس خوف سے جھٹ سے گھر کی جانب بھاگ کر آتے ہیں کہ کہیں دوبارہ پکڑ کر پولیس اسٹیشن نہ لے جائیں۔
زرکئی کہتی ہیں پولیس اسٹیشن کے لمحات ان کے لیے نہایت کرب ناک تھے کیوں کہ وہ خود کو بے یار و مددگار محسوس کر رہی تھیں۔ یہ کسی بھی طور ایک خوفناک خواب سے کم نہیں تھا۔
واضح رہے کہ نومبر 2023 میں پاکستانی حکام نے ملک میں غیر قانونی طور پر مقیم افراد سے متعلق ایک نئی پالیسی بنائی تھی جس میں ایسے تمام غیر ملکی افراد کی بے دخلی کی سفارش کی گئی تھی جو غیر قانونی طور پر مقیم ہوں۔
اس پالیسی کے بعد سے حکومتی اعداد و شمار کے مطابق تقریباً آٹھ لاکھ افغان شہریوں کو واپس اپنے ملک بھیجا جا چکا ہے۔
'اسلام آباد سے 183 غیرقانونی پناہ گزینوں کی بے دخلی'
ڈپٹی کمشنر آفس کے ایک بیان کے مطابق رواں سال اسلام آباد سے مجموعی طور پر 183 غیر قانونی غیر ملکیوں کو ڈی پورٹ کیا گیا ہے۔
منگل کو ڈپٹی کمشنر اسلام آباد کی جانب سے جاری ایک بیان میں کہا گیا تھا کہ پروف آف رجسٹریشن اور افغان سٹیزن کارڈ، ویزے یا وہ افراد جو کسی دوسرے ملک میں آبادکاری کے لیے فہرست میں ہیں، انہیں واپس نہیں بھیجا جا رہا ہے۔
تاہم حکومتی دعوؤں کے برعکس گزشتہ روز اسلام آباد میں افغان پناہ گزینوں کے ایک رہائشی کیمپ پر کارروائی کے دوران مٹی سے بنے کئی گھروں کو مسمار کر دیا گیا۔
ایک افغان پناہ گزین بہرام الکوزئی نے وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ حکومتی مشینری نے بغیر کسی پیشگی اطلاع کے ان کے گھروں کو گرا دیا۔
ان کے بقول اب ان کے چھوٹے بچے اور بچیاں اس شدید سردی میں کہاں جائیں گے؟ باپردہ خواتین کے لیے سر چھپانے کی جگہ کہاں ہو گی؟
'آپریشن افغان باشندوں کے خلاف نہیں'
دوسری جانب اسلام آباد انتظامیہ کا مؤقف ہے کہ ان کا آپریشن افغان باشندوں کے خلاف نہیں بلکہ تجاوزات کے خلاف ہے۔
اسلام آباد میں قائم افغان سفارت خانے نے دعویٰ کیا ہے کہ 800 افغان باشندوں کو حراست میں لیا گیا جس پر تشویش ہے۔
ایک بیان میں افغان سفارتخانے کا کہنا تھا کہ این او سی کے تقاضوں اور اس کے اجرا کا عمل واضح نہ ہونے کی وجہ سے غیر ضروری گرفتاریوں اور ملک بدری کے پریشان کن واقعات پیش آئے ہیں۔
سفارت خانے کے بقول ملک بدر کیے جانے والے افراد میں 137 ایسے افغان باشندے بھی شامل ہیں جن کے ویزے ختم ہو چکے تھے۔ لیکن انہوں نے پہلے ہی ان کی تجدید کے لیے درخواست دی ہوئی تھی۔
ادھر حکومتِ پاکستان نے واضح کیا ہے کہ نامکمل دستاویزات رکھنے والے کسی بھی غیر ملکی شہری کو پاکستان میں مزید قیام کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
وفاقی وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے بدھ کو امریکی سفیر ڈونلڈ بلوم کے ساتھ ملاقات کے دوران اس مؤقف کا ایک بار پھر اعادہ کیا کہ کسی بھی غیر ملکی کو غیر قانونی طور پر پاکستان میں رہنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
'ڈی پورٹیشن کا سلسلہ روکا جائے'
پاکستان میں اقوام متحدہ کے ادارہ برائے مہاجرین (یو این ایچ سی آر) کے ترجمان قیصر خان آفریدی نے دعویٰ کیا ہے کہ یکم جنوری 2025 سے اب تک پاکستانی حکام نے اسلام آباد سے 186 افغان شہریوں کو ڈی پورٹ کیا ہے۔
یو این ایچ سی آر نے اس اقدام پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے حکومت سے اپیل کی ہے کہ مزید ڈی پورٹیشن کا سلسلہ فوری طور پر روکا جائے۔
واضح رہے کہ پاکستان میں حکومتی اور یو این ایچ سی آر کے ڈیٹا کے مطابق 30 لاکھ سے زائد افغان شہری مقیم ہیں۔ ان میں وہ مہاجرین بھی شامل ہیں جو دہائیوں پہلے پاکستان آئے تھے۔
اس کے علاوہ اگست 2021 میں افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد تقریباً سات لاکھ سے زائد افغان شہری بہتر مستقبل اور تحفظ کی تلاش میں پاکستان منتقل ہوئے تھے۔
قیصر خان آفریدی کا کہنا ہے کہ ڈی پورٹ کیے گئے افراد میں سے بعض یو این ایچ سی آر کے ساتھ رجسٹرڈ تھے جب کہ کچھ ایسے افراد بھی شامل ہیں جنہوں نے پناہ کی درخواستیں دے رکھی تھیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ حکومت ان افراد کو بھی ہراساں کر رہی ہے جنہیں قانونی تحفظ حاصل ہے۔
انہوں نے خبردار کیا کہ افغانستان کی موجودہ انسانی حقوق کی صورتِ حال اور سخت موسم کے پیش نظر ان افراد کو واپس بھیجنا نہ صرف ان کی زندگیوں کے لیے خطرناک ہے بلکہ انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزی بھی ہے۔
قیصر خان آفریدی کا کہنا تھا کہ پاکستان میں مقیم افغان شہریوں میں صحافی، انسانی حقوق کے کارکن، میوزیشنز، اقلیتی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد اور سابقہ حکومتوں سے منسلک افراد شامل ہیں۔ ان سب کو افغانستان واپس بھیجنا خطرے سے خالی نہیں ہو گا کیوں کہ ان کے لیے وہاں کی موجودہ صورتِ حال میں جان کا خطرہ بڑھ سکتا ہے۔
انہوں نے حکومت پاکستان سے اپیل کی کہ افغان مہاجرین کے لیے موجودہ پالیسیوں پر نظرثانی کرتے ہوئے ان کے تحفظ کو یقینی بنایا جائے۔
فورم