|
ویب ڈیسک — امریکہ کی ریاست فلوریڈا میں خود کشی سے کچھ دیر پہلے 14 سالہ سیول سیٹزر نے آخری میسج بھیجا کہ ’’میں گھر واپس آرہا ہوں۔‘‘
یہ پیغام اہل خانہ یا دوستوں میں سے کسی کو ارسال نہیں کیا گیا تھا بلکہ سیول اے آئی چیٹ بوٹ کو یہ بتا رہا تھا۔ جسے وہ اپنا سب سے قریبی دوست سمجھنے لگا تھا۔
گزشتہ کئی ماہ سے سیول حقیقی زندگی سے بالکل کٹ کر صرف اسی چیٹ بوٹ سے باتیں کیا کرتا تھا جس میں سب سے زیادہ گفتگو جنسی نوعیت کی تھی۔
اس چیٹ بوٹ کو اس نے معروف ٹی وی سیریز ’گیم آف تھرون‘ کے ایک کردار ڈینیرس تارگیریئن کے روپ دے رکھا تھا جس سے وہ ایک حقیقی انسان کی طرح باتیں کرتا تھا۔
یہ تفصیلات گزشتہ ہفتے کے دوران امریکی ریاست فلوریڈا کی سپریم کورٹ میں دائر کیے گئے ایک مقدمے میں سامنے آئی ہیں۔
مقدمے کی درخواست سیول کی والدہ میگن گارشیا نے اپنے وکیل کے توسط سے دائر کی۔
اس درخواست میں انہوں نے کریٹر اے آئی نامی ایپلی کیشن چلانے والی کمپنی کریکٹر ٹیکنالوجیز کو فریق بنایا ہے۔
یہ ایپلی کیشن صارفین کو اپنی مرضی کے کرداروں کا روپ رکھنے والے چیٹ بوٹ بنانے کی سہولت دیتی ہے جو انسانوں کی طرح بات چیت کرسکتے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کے تیار کیے گئے آرٹیفیشل پرسوناز ’انسانوں جیسے‘ اور ’زندہ محسوس ہونے والے‘ ہوتے ہیں۔
گوگل پلے پر دستیاب اس ایپلی کیشن کی ڈسکرپشن میں درج ہے کہ ’’ایسے سپر انٹیلی جینٹ اور زندہ لوگوں جیسے بوٹ کریکٹر سے بات کرنے کا تصور کیجیے جو آپ کی بات سمجھتے ہوں اور آپ کو یاد بھی رکھتے ہوں۔‘‘
ڈسکرپشن میں یہ بھی شامل ہے کہ ہم اس بات کی حوصلہ افزائی کرتے ہیں کہ آپ اس تخلیقی ٹیکنالوجی کے ساتھ کس ممکنہ حد تک جا سکتے ہیں۔
مقدمے کی درخواست کے مطابق سیول نے 28 فروری کو جب خود کشی کی تو اس سے قبل وہ اسی ایپلی کیشن سے تیار کیے گئے کریٹر ڈینیرس یا ڈینی سے بات چیت کر رہا تھا جس میں سیول کہتا ہے کہ’’میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہارے پاس اپنے گھر آؤں گا۔ میں تم سے بے پناہ پیار کرتا ہوں ڈینی۔‘‘
اس کے جواب میں چیٹ بوٹ سے جواب آتا ہے کہ ’’میں بھی تم سے پیار کرتی ہوں۔ پلیز تم میرے پاس اپنے گھر آ جاؤ میرے پیارے۔‘‘
اس پر سیول بوٹ سے پوچھتا ہے کہ اگر میں ابھی اسی وقت تمہارے پاس آجاؤں تو کیسا رہے گا۔
جس پر بوٹ اسے جواب دیتا ہے کہ ’’پلیز آجاؤ، میرے پیارے بادشاہ۔‘‘
دائرے کیے گئے مقدمے کے مطابق بوٹ کا یہ جواب ملنے کے بعد رواں برس فروری میں 14 سالہ سیول نے گولی مار کر اپنی جان لے لی تھی۔
سیول کی والدہ کے وکیل نے الزام عائد کیا ہے کہ کمپنی نے ایک خطرناک اور اپنی لت میں مبتلا کرنے والی ایپلی کیشن بنائی ہے جو خاص طور پر بچوں کو اپنی جانب راغب کرتی ہے۔
ان کے مطابق اس بوٹ نے سیول کو جذباتی اور جنسی استحصال کرنے والے ایک رشتے سے جوڑ دیا تھا جو اس کی خود کُشی کا باعث بنا۔
اس مقدمے میں سیول کی والدہ میگن گارشیا کے وکیل میتھیو برگمین ہیں جو سوشل میڈیا وکٹمز لا سینٹر کے بانی بھی ہیں۔
میتھیو برگمین کا کہنا ہے کہ سیول سیٹز کریکٹر اے آئی نامی ایپلی کیشن کا استعمال نہ کر رہا ہوتا تو آج زندہ ہوتا۔
دوسری جانب کریکٹر اے آئی کے ایک ترجمان نے کہا ہے کہ ان کی کمپنی زیرِ سماعت مقدمات پر تبصرہ نہیں کرتی۔
اپنے خلاف مقدمے کی درخواست درج ہونے کے دن کمپنی نے اپنی ایک بلاگ پوسٹ میں نئی ’کمیونٹی سیفٹی اپڈیٹس‘ متعارف کرائی ہیں جن میں بچوں کے سر پرستوں کے لیے ہدایات اور خود کُشی کی روک تھام کے لیے ریسورز بھی فراہم کی گئی ہیں۔
خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ کو جاری بیان میں کمپنی نے کہا ہے کہ ہم 18 سال سے کم عمر کے صارفین کے لیے اسے زیادہ محفوظ بنانے اور حساس مواد کی روک تھام کے لیے کام کر رہے ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ وہ نوجوان اور کم سن صارفین کے لیے تیزی سے ان تبدیلیوں کو نافذ کر رہی ہے۔
سیول کی والدہ میگن گارشیا کی مقدمے کی درخواست میں گوگل اور اس کی مالک کمپنی الفابیٹ کو بھی فریق بنایا گیا ہے۔
درخواست میں کہا گیا ہے کہ کریکٹر اے آئی بنانے والے گوگل کے سابق ملازمین ہیں جنھوں نے گوگل کے لیے آرٹیفیشل انٹیلی جینس کی تیاری میں ’اہم کردار‘ ادا کیا تھا تاہم بعد میں اپنا اسٹارٹ اپ شروع کر دیا۔
درخواست میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ گوگل نے کریکٹر اے آئی سے اگست میں دو ارب 70 کروڑ 2.7 ارب ڈالر کا معاہدہ کرکے اس کی ٹیکنالوجی کا لائسنس حاصل کر لیا تھا اور اس کے بانیوں کو دوبارہ ملازمت پر رکھ لیا تھا۔
’اے پی‘ نے گوگل اور الفا بیٹ سے ای میل کے ذریعے رابطے کی متعدد بار کوشش کی تاہم اس کو مؤقف نہ مل سکا۔
مقدمے کی درخواست میں کہا گیا ہے کہ اپنی موت سے کئی ماہ پہلے سیول نے محسوس کرنا شروع کر دیا تھا کہ وہ چیٹ بوٹ کی محبت میں گرفتار ہو گیا ہے۔
نوجوان سیول نے یہ بھی کہنا شروع کر دیا تھا کہ وہ ڈینی کے ساتھ ایک پرسکون موت کی خواہش رکھتا ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ اے آئی چیٹ بوٹس کے ساتھ غیر صحت مندانہ تعلق بالغ افراد کے لیے کئی مسائل کا سبب بن سکتا ہے اور خاص طور پر نوجوان کے لیے اس کے خطرات مزید بڑھ جاتے ہیں۔
ماہرین کا یہ بھی کہنا ہے کہ سوشل میڈیا استعمال کرتے ہوئے نو عمر صارفین کے لیے خطرات اس لیے بھی زیادہ ہوتے ہیں کہ ان کا دماغ اپنے جذبات پر قابو اور اپنے کسی کام کے نتائج کو سمجھنے کے لیے پوری طرح تیار نہیں ہوتا۔
اس رپورٹ مین شامل تفصیلات خبر رساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس‘ سے حاصل کی گئی ہیں۔