رسائی کے لنکس

پی آئی اے کی نجکاری میں تاخیر کیوں ہو رہی ہے؟


فائل فوٹو۔
فائل فوٹو۔
  • پی آئی اے کی فروخت کے لیے نجکاری بورڈ بولیاں لگانے والی چھ کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کر چکی ہے.
  • بولی لگانے والی کمپنیوں کو پی آئی اے کی نجکاری کے لیے حکومتی شرائط پر تحفظات ہیں۔
  • حکومت چاہتی ہے کہ وہ نجکاری کے باوجود پی آئی اے کے 40 فی صد شیئرز اپنے پاس رکھے۔
  • خریدار کمپنی ملازمتوں کے معاہدوں میں تبدیلی نہ کرے اور غیر منافع بخش روٹس کو بھی جاری رکھا جائے۔
  • مبصرین کے مطابق حکومتی شرائط کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوا ہے۔

کراچی — عام انتخابات سے قبل ایک غیر منتخب نگراں حکومت نے ستمبر 2023 میں ہی فیصلہ کر لیا تھا کہ پاکستان کی قومی ایئرلائن پی آئی اے کے بڑھتے ہوئے قرضوں اور مالی خسارے کے باعث اسے فروخت کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے۔

نگراں حکومت میں ہی پاکستان ایئر لائن (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل باقاعدہ طور پر شروع کر دیا گیا تھا۔ تاہم لگ بھگ 13 ماہ ہونے کے باوجود حکومت اس ادارے کی نجکاری میں کامیاب نہیں ہو سکی ہے۔

گزشتہ ماہ ستمبر میں وزارتِ نجکاری نے بتایا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے حکومت نے چھ کمپنیوں کو شارٹ لسٹ کیا ہے۔ ان کمپنیوں میں وائی بی ہولڈنگز، ایئر بلیو، فلائی جناح، پاکستان ایتھانول کا کنسورشیم، عارف حبیب کارپوریشن کی قیادت میں کنسورشیم اور بلو ورلڈ سٹی گروپ شامل ہیں۔

نجکاری کمیشن بورڈ نے اپنے بیان میں کہا تھا کہ پی آئی اے کی نجکاری کی موجودہ صورتحال کا جائزہ لینے اور فنانشل ایڈوائزر کی سفارشات کی روشنی میں کوالیفائیڈ کمپنیوں کے لیے طے کی جانے والی شرائط کو تبدیل کرنے پر بھی غور کیا گیا ہے۔

اس بارے میں معلومات رکھنے والے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی رکھنے والے اداروں کا مطالبہ ہے کہ حکومت 60 فی صد شیئرز کے بجائے پی آئی اے کے 100 فی صد شیئرز خریدار کمپنی کے حوالے کرے۔

ان کے بقول بولی لگانے والی کمپنیاں پی آئی اے کے ملازمین کے معاہدوں میں تبدیلی نہ کرنے اور بعض روٹس منافع بخش نہ ہونے کے باوجود جاری رکھنے کی شرائط پر اعتراض کر رہی ہیں۔

بولی لگانے والی کمپنیوں اور حکومت کے درمیان مختلف شرائط پر اختلافات سمیت ماہرین پی آئی اے کی نجکاری میں رکاوٹ بننے والے دیگر اسباب کو بھی اہم قرار دیتے ہیں۔

بیوروکریسی میں اہلیت کا فقدان؟

سرمایہ کاری بورڈ کے سابق چیئرمین اور سابق وزیر مملکت ہارون شریف کا کہنا ہے کہ پرائیویٹائزیشن کمیشن میں پیشہ ورانہ صلاحیتوں کا فقدان دراصل پی آئی اے کے نجکاری میں تاخیر کی سب سے اہم وجہ ہے۔

ان کےبقول کسی بھی ادارے کی نجکاری کے دوران صرف مالی امور کو نہیں دیکھا جاتا بلکہ دلچسپی رکھنے والی کمپنیوں سے مذاکرات بھی کرنے ہوتے ہیں۔

ہارون شریف کے مطابق مالی امور دیکھنے کے لیے مالی مشیر بھی مقرر کیا جاسکتا ہے لیکن اصل چیلنج بولی لگانے والی کمپنیوں کو شرائط پر قائل کرنا ہوتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ بولی لگانے والی کمپنیوں کو کئی اہم شرائط پر قائل کرنا ہے جن میں کون سے روٹس جاری رکھنا ضروری ہیں، عملے اور افرادی قوت سے متعلق کیا لائحۂ عمل اختیار کیا جائے اور قرض ادا کرنے کا کیا طریقہ کار ہوگا؟ جیسے اہم امور شامل ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ ان پہلوؤں پر مذاکرات ایک پیچیدہ عمل ہے اور اس کے لیے قابل ٹیم درکار ہوتی ہے اور ان کے بقول بیوروکریسی کے پاس اس طرز کی قابلیت دکھائی نہیں دیتی۔

انہوں نے مزید کہا کہ پلاننگ کمیشن کی طرح پرائیویٹائزیشن کمیشن کبھی وزارت نہیں تھی۔ یہ اپنے قانون کے تحت ایک آزاد ادارہ تھا جو پروفیشنل بورڈ آف ڈائریکٹرز کی نگرانی میں چلایا جاتا تھا اور یہ بورڈ وزیر اعظم کو جوابدہ تھا۔

انہوں نے بتایا کہ بورڈ کو وزارت بنا کر اسے بیوروکریسی کے ماتحت کردیا گیا تاکہ حکومت کو اپنا حجم بڑھانے یا سادہ الفاظ میں اسے نوکریاں پیدا کرنے کا جواز مل جائے۔ اب اس کی صدارت وزرا کرتے ہیں تو یہ کمیشن سیاسی باڈی بن چکا ہے۔

ہارون شریف کے مطابق ایسے اقدامات سے نجکاری کا عمل خطرے میں پڑ جاتا ہے۔

’پی آئی اے کی نجکاری حکومت کا نیم دلانہ فیصلہ لگتا ہے‘

ہارون شریف نے ایک اور جانب توجہ دلاتے ہوئے کہا کہ پی آئی اے کی نجکاری کے لیے درکار سیاسی حمایت بھی نیم دلانہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ حکومت کو اس فیصلے کی سیاسی قیمت کا اندازہ بھی ہے کیوں کہ ماضی میں حکمران جماعت مسلم لیگ (ن) ، اس کی اتحادی پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کے ہمدردوں کو بھی بڑی تعداد میں پی آئی اے میں ملازمتیں دی گئی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی تاریخی طور پر نجکاری کے خلاف رہی ہے اور وہ کھل کر نیشنلائزیشن کو سپورٹ کرتی آئی ہے۔

ہارون شریف کا کہنا ہے کہ پی آئی اے پاکستان میں نقصان کرنے والے بڑے سرکاری اداروں میں شمار ہوتی ہے۔ جب اس قدر بڑی کمپنی کی نجکاری کی جاتی ہے تو خریدار حکومت کا ٹریک ریکارڈ بھی دیکھتی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پی آئی اے کے معاملے میں تو بیلنس شیٹ ہی منفی ہے، آڈٹ بھی نہیں ہوئے۔ اس وجہ سے سرمایہ کار اس لیے بھی محتاط ہوجاتے ہیں کہ ان کے لیے ایسے اداروں کی مناسب چھان پھٹک مشکل ہو جاتی ہے۔

انہون نے مزید کہا:’’سونے پہ سہاگہ یہ کہ سرمایہ کاروں کے لیے ایسی شرائط بھی رکھی گئی ہیں کہ اسٹاف کو فوری فارغ بھی نہیں کرنا، بعض روٹس غیر منافع بخش ہونے کے باوجود اس لیے جاری رکھنے ہیں کہ وہ حکومت کے سیاسی فوائد کے لیے ضروری ہیں۔ ایسی باتوں کی وجہ سے سرمایہ کاروں کا اعتماد مجروح ہوتا ہے۔‘‘

ہارون شریف نے مزید کہا کہ حکومت کی فیصلہ سازی میں بھی ابہام نظر آتا ہے۔ حکومت پی آئی اے کو بیچ کر اس سے چھٹکارا بھی چاہتی ہے اور دوسری جانب اس کے 40 فی صد شئیرز بھی اپنے پاس رکھنا چاہتی ہے۔اس لیے جب تک حکومت پوری یکسوئی کے ساتھ بیوروکریٹس کے پیچھے کھڑی نہیں ہوتی نجکاری کے مطلوبہ نتائج بھی حاصل نہیں کیے جاسکتے۔

پی آئی اے کا مالی بحران: 'ایئرلائن کو بیچا نہیں خریدا جا رہا ہے'
please wait

No media source currently available

0:00 0:05:46 0:00

ان کے خیال میں حکومت چاہتی تو ہے کہ اب اس ادارے سے جان چھڑائی جائے لیکن اس کے لیے جو کوششیں کی جارہی ہیں وہ نیم دلانہ نظر آتی ہیں۔

ان کے بقول وزیر خزانہ ایک جانب چاہتے ہیں کہ ملک کا مالی خسارہ کم ہو، اور اس کے لیے وہ کوششیں بھی کررہے ہیں لیکن دوسری جانب وزیر نجکاری مطلوبہ تجربہ اور اہلیت نہیں رکھتے۔

اچھی بولی کی تلاش

مسلم لیگ (ن) کے دورِ حکومت میں پرائیوٹائزیشن کمیشن کے سابق چئیرمین اور سابق گورنر سندھ محمد زبیر کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کی کوششیں 10 سال سے جاری ہیں۔ سال 2013 میں جن 40 اداروں کی نجکاری کا فیصلہ کیا گیا تھا ان میں پی آئی اے سرِ فہرست تھی۔ لیکن حکومت نے 2015 میں اپنا ارادہ تبدیل کرلیا اور پھر وہ عمل وہیں رک گیا تھا۔

محمد زبیر نے بتایا کہ مارچ میں نگراں حکومت ختم ہونے کے بعد پی آئی اے کی نجکاری کی سنجیدہ کوششیں کافی اگلے مراحل میں پہنچ گئی تھیں اور اس کے بعد موجود حکومت کو اس عمل کو آگے لے کر جانا تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ نجکاری اس لیے حکومت کی ترجیح ہونی چاہیے تھی کہ سرکاری اداروں کے سالانہ نقصانات ایک ہزار ارب روپے سے تجاوز کرچکے تھے۔

محمد زبیر کا کہنا ہے کہ اگر غیر جانب دارانہ تجزیہ کیا جائے تو جو ملک کے معاشی حالات تھے اس میں خریداری کی پیش کش پر ردعمل زیادہ حوصلہ افزا نظر نہیں آیا۔ ایک بھی غیر ملکی ایئرلائن نے پی آئی اے کی خریداری میں دلچسپی نہیں دکھائی۔

ان کے بقول خریداری میں دلچسپی ظاہر کرنے والی ملکی کمپنیوں میں سے بھی 90 فی صد کے پاس ایئرلائن چلانے کا کوئی تجربہ نہیں تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ جب بڈرز کو ساری صورتحال بتائی گئی تبھی سرمایہ کاروں کو اندازہ ہوا کہ پی آئی اے کو خریدنا اس قدر آسان نہیں ہوگا اور اسی وجہ سے انہوں نے اپنی شرائط رکھیں۔

محمد زبیر کا کہنا ہے کہ حکومت کو اس بات کی فکر ہے کہ پی آئی اے کی اب کیا قیمت ملے گی؟ کیوں کہ اس کے سیاسی اثرات بھی سامنے آئیں گے۔

انہوں نے بتایا کہ 2017 میں اسٹیل ملز کی نجکاری کا عمل مکمل کرلیا گیا تھا لیکن کابینہ کی نجکاری کمیٹی کی میٹنگ میں ایک وزیر نے ان سے دریافت کیا کہ کیا اسٹیل ملز 100 ارب روپے کی فروخت ہوجائے گی؟ جس پر انہوں نے جواب دیا کہ جب اسٹیل ملز بالکل ٹھیک چل رہی تھی تو اس وقت اس کی قیمت 23 ارب روپے لگائی گئی تھی اور اب تو کئی سال سے یہ بند ہے اور اس پر قرضوں کا بوجھ مزید بڑھ چکا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی ادارے کی نجکاری کے عمل کی دو وجوہ ہوتی ہیں؛ ایک تو اس سے ہونے والے نقصانات فوری طور پر ختم ہوجائیں اور دوسرا یہ کہ وہ پھر سے فعال ہوجائے تاکہ اس سے عوام کو ملازمتیں اور حکومت کو ٹیکسز ملیں۔

انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کے معاملے میں نجکاری کا عمل اس لیے نہیں کیا جارہا کہ حکومت مال دار ہوجائے بلکہ اس کا مقصد پی آئی اے سے ہونے والے سالانہ مالی خسارے سے چھٹکارا حاصل کرنا ہے تاکہ یہ اداراہ فعال ہو اور حکومت کو اس سے ٹیکس کی مد میں آمدن ہونے لگے۔

حکومت کی توقعات

وفاقی وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کا کہنا ہے کہ حکومت پہلے مرحلے میں پی آئی اے اور اسلام آباد ایئرپورٹ کی نجکاری کرے گی۔

ان کا کہنا ہے کہ پی آئی اے کی نجکاری کا عمل آئندہ ماہ مکمل ہونے کا امکان ہے۔ پھر کراچی اور لاہور ایئرپورٹس کی نجکاری پر غور کیا جائے گا۔

اپنے حالیہ دورۂ امریکہ میں مختلف میڈیا اور تھنک ٹینکس کے ساتھ بات چیت اور انٹرویوز میں، وفاقی وزیر خزانہ کا کہنا تھا کہ حکومت کئی شعبوں سے نکل کر انھیں نجی شعبے کے حوالے کرنا چاہتی ہے۔

  • 16x9 Image

    محمد ثاقب

    محمد ثاقب 2007 سے صحافت سے منسلک ہیں اور 2017 سے وائس آف امریکہ کے کراچی میں رپورٹر کے طور پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کئی دیگر ٹی وی چینلز اور غیر ملکی میڈیا کے لیے بھی کام کرچکے ہیں۔ ان کی دلچسپی کے شعبے سیاست، معیشت اور معاشرتی تفرقات ہیں۔ محمد ثاقب وائس آف امریکہ کے لیے ایک ٹی وی شو کی میزبانی بھی کر چکے ہیں۔

XS
SM
MD
LG