|
ویب ڈیسک — لبنان کی طاقت ور عسکری تنظیم حزب اللہ نے اپنے سابق سربراہ حسن نصر اللہ کی اسرائیلی حملے میں موت کے ایک ماہ بعد ان کے نائب شیخ نعیم قاسم کو اپنا نیا سربراہ منتخب کرنے کا اعلان کر دیا ہے۔
حسن نصر اللہ کی موت گزشتہ ماہ لبنان کے دارالحکومت بیروت پر اسرائیل کے جنگی طیاروں کی بمباری میں ہوئی تھی۔
خبر رساں ادارے 'رائٹرز' کے مطابق شیخ نعیم قاسم ایران کی حامی عسکری تنظیم حزب اللہ کے ڈپٹی سیکریٹری جنرل تھے۔ وہ گزشتہ 30 برس سے اس تنظیم میں اعلیٰ عہدوں پر فائض رہے ہیں۔
رواں ماہ کے آغاز میں نعیم قاسم کا ایک خطاب سامنے آیا تھا جو کہ انہوں نے نامعلوم مقام سے ایک پردے کے سامنے بیٹھ کر کیا تھا۔ آٹھ اکتوبر کو کیے گئے اس خطاب میں انہوں نے کہا تھا کہ اسرائیل اور حزب اللہ کے درمیان تنازع یہ ہے کہ پہلے کس کے آنسو جاری ہوتے ہیں اور وہ روتا ہے۔
ان کے بقول حزب اللہ پہلے نہیں روئے گی۔ اسرائیل کی جانب سے پہنچائے گئے شدید نقصانات کے باوجود حزب اللہ کی صلاحیتیں برقرار ہیں۔
انہوں نے اسی خطاب میں لبنان کی پارلیمان کے اسپیکر نبیہ مصطفیٰ باری کی بھی تعریف کی جو کہ ایوان میں حزب اللہ کی اتحادی جماعت ’حرکت امل‘ کے سربراہ بھی ہیں۔
پارلیمان کے اسپیکر حزب اللہ اور اسرائیل میں جنگ بندی کے لیے کوشش کر رہے ہیں۔
نعیم قاسم کا کہنا تھا کہ حزب اللہ نبیہ مصطفیٰ کی لڑائی کے خاتمے کے لیے کوشش کی حامی ہے۔ انہوں نے اس خطاب میں غزہ میں جنگ بندی کا کوئی ذکر نہیں کیا تھا۔ جو اسرائیل سے لڑائی شروع ہونے سے قبل حزب اللہ کا مستقل مطالبہ تھا۔
ان کا یہ آدھے گھنٹے کا خطاب حسن نصر اللہ کے ممکنہ جانشین ہاشم صفی الدین کی اسرائیلی حملے میں موت کے اگلے دن جب کہ حسن نصر اللہ کی ہلاکت کے 11 دن بعد نشر ہوا تھا۔
نعیم قاسم کو 1991 میں حزب اللہ کا ڈپٹی چیف مقرر کیا گیا تھا۔ اُس وقت عسکری تنظیم کے سیکریٹری جنرل عباس الموسوی تھے۔
عباس الموسوی کی موت 1991 میں ہی اسرائیل کے ایک ہیلی کاپٹر کے حملے میں ہوئی تھی۔ ان کی موت کے بعد حسن نصر اللہ نے حزب اللہ کی قیادت سنبھالی تو بھی نعیم قاسم اہم ذمہ داریاں ادا کرتے رہے۔
حزب اللہ کے نئے سربراہ ایک طویل عرصے سے تنظیم کے سرکردہ ترجمانوں میں شامل رہے ہیں۔ وہ بین الاقوامی میڈیا کو بھی انٹرویوز دیتے رہے ہیں۔ وہ اس وقت بھی یہ ذمہ داریاں ادا کر رہے تھے جب اسرائیل کے ساتھ عسکری تنظیم کا حالیہ تنازع شروع ہوا۔
حزب اللہ اور اسرائیل کی لڑائی میں شدت گزشتہ ماہ اس وقت شدید ہوئی جب اسرائیلی فورسز نے جنوبی لبنان میں زمینی کارروائی شروع کی اور دارالحکومت بیروت سمیت دیگر مقامات پر حزب اللہ کی املاک پر بمباری کا آغاز کیا۔
رواں ماہ آٹھ اکتوبر کو نعیم قاسم کا نشر ہونے والا خطاب ان کی ستمبر میں اسرائیلی کارروائی کے آغاز کے بعد دوسری تقریر تھی۔
اسرائیل کی فوج کی فضائی کارروائی میں 27 ستمبر کو حسن نصر اللہ کی موت کے بعد نعیم قاسم حزب اللہ کی اعلیٰ قیادت میں پہلے رہنما تھے جو منظرِ عام پر آئے اور ٹیلی ویژن پر خطاب کیا۔
انہوں نے 30 ستمبر کو اپنے پہلے خطاب میں کہا تھا کہ حزب اللہ بہت جلد حسن نصر اللہ کے جانشین کا انتخاب کرے گی اور فلسطینیوں کی حمایت میں اسرائیل کے خلاف اس کی لڑائی جاری رہے گی۔
نعیم قاسم کا یہ خطاب 19 منٹ پر مشتمل تھا جس میں انہوں نے کہا تھا کہ اب تک حزب اللہ جو کچھ کر رہی ہے وہ کم سے کم ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم آگاہ ہیں کہ یہ جنگ لمبی چلے گی۔
نعیم قاسم کی پیدائش 1953 میں جنوبی لبنان کے ایک خاندان میں ہوئی۔ انہوں نے اپنی سیاسی سرگرمیوں کا آغاز ’حرکت الامل‘ سے کیا تھا۔
ایران میں جب 1979 میں بادشاہت کا خاتمہ ہوا اور مذہبی طبقہ برسرِ اقتدار آیا جس کو ’اسلامی انقلاب‘ کا نام دیا گیا، تو اسی زمانے میں نعیم قاسم نے حرکت الامل سے علیحدگی اختیار کر لی۔ نعیم قاسم اس وقت لبنان کے دیگر اہلِ تشیع نوجوانوں کی طرح ایران میں آنے والی تبدیلی سے شدید متاثر تھے۔
انہوں نے ان تمام اجلاسوں میں شرکت شروع کر دی تھی جو بعد میں حزب اللہ کے قیام کی وجہ بنے۔
ایران کی پاسدارانِ انقلاب کی پشت پناہی سے حزب اللہ کا قیام 1982 میں اس وقت عمل میں آیا تھا جب اسرائیل نے لبنان میں در اندازی کی تھی۔
حزب اللہ نے پہلی بار 1992 میں لبنان کے عام انتخابات میں حصہ لیا تھا اور اس کے بعد سے مسلسل پارلیمان کا حصہ ہے۔ اس کے بعد سے مسلسل نعیم قاسم ہی اسی انتخابی مہم کے جنرل کوآرڈینیٹر نعیم قاسم ہی رہے ہیں۔
نعیم قاسم نے 2005 میں حزب اللہ کی تاریخ پر کتاب بھی تحریر کی تھی جس میں اس عسکری تنظیم کے اندرونی حالات کی خبر ملتی ہے۔
حزب اللہ کے نئے سربراہ سفید عمامہ سر پر باندھتے ہیں جب کہ اس سے قبل حسن نصر اللہ اور صفی الدین سیاہ عمامہ باندھتے تھے۔ ان دونوں کے سیاہ عمامے ان کے پیغمبرِ اسلام سے نسبی تعلق کو ظاہر کرتے تھے۔
(اس رپورٹ میں خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ سے معلومات شامل کی گئی ہیں۔)