|
شام کے صدر بشار الاسد کی حکومت کے خاتمے کے بعد، بائیڈن انتظامیہ نے کہا ہےکہ وہ شامی عوام کے سامنے جوابدہ کسی غیر فرقہ وارانہ حکومت کی طرف منتقلی کے شفاف اور جامع عمل کی مکمل حمایت کرے گی۔
امریکی وزیر خارجہ انٹنی بلنکن نے منگل کو ایک بیان میں کہا کہ "نئی حکومت کو اس بارے میں واضح وعدوں پر بھی قائم رہنا چاہیے کہ وہ اقلیتوں کے حقوق کا احترام کرے گی، تمام ضرورت مندوں کے لئے انسانی ہمدردی کی امداد کی ترسیل کو آسان بنائیگی، شام کو دہشت گردی کے ایک اڈے کے طور پر استعمال ہونے یا اپنے پڑوسیوں کے لیے کوئی خطرہ بننے سے روکے گی، اسے یقینی بنائے گی کہ کیمیائی یا جراثیمی ہتھیاروں کے تمام ذخیرے محفوظ ہوں اور بحفاظت تلف کر دیے جائیں۔"
امریکہ کی جانب سےدمشق میں نئی حکومت کو تسلیم کرنے سے شام کے خلاف ان پابندیوں کو اٹھایا جا سکتا ہے جنہوں نے اسکی معیشت کو مفلوج کر دیا ہے ۔ یہ ایک ایسی ترغیب ہے جسے بائیڈن انتظامیہ ایسے میں موثر طریقے سے استعمال کر سکتی ہے جب شام کا مستقبل انتہائی غیر یقینی ہے۔
وائٹ ہاؤس کے قومی سلامتی کے مشیر جان کربی نے منگل کو وی او اے کو ایک انٹرویو میں کہا کہ"ہم شام میں حکومت چلانے کے حوالے سے جو کچھ دیکھنا چاہتے ہیں وہ ایسی گورننس ہے جسے قابل اعتبار اور جائز سمجھا جائے، جو پائیدار ہو، اور جو شامی عوام کی امنگوں کو پورا کرے ۔"
ہئیت تحریر الشام کے رہنما الجولانی
اسد کو معزول کرنے والی ہئیت تحریر الشام نامی باغی تحریک کو امریکہ نے ایک غیر ملکی دہشت گرد گروپ نامزد کیاہے۔ اس کے رہنما ابو محمد الجولانی کے سر پر 10 ملین ڈالر کا انعام ہے۔
انہوں نے اپنے جنگجوؤں کی جانب سے ملک پربرق رفتاری سے قبضہ کئےجانے کے بعد اپنی پہلی تقریر میں کہا۔"میرے بھائیو، یہ فتح پوری اسلامی قوم کی تاریخ میں ایک نیا باب ہے۔"
انہوں نے ایران کو دوسروں سےالگ کرتے ہوئے کہا کہ یہ خطے کے لیے ایک اہم موڑ ہے۔ انہوں نے جو پیغام دیا اس کے بارے میں وہ جانتے ہیں کہ اسرائیل اور امریکہ میں اسے مثبت ردعمل ملےگا۔ جولانی نے کہا، "انہوں ( اسد ) نے ملک بھر میں فرقہ واریت اور بدعنوانی پھیلاتے ہوئے شام کو ایرانی عزائم کے حوالے کر دیا۔ "
جولانی نے منگل کو ایک بیان میں عزم ظاہر کیا تھاکہ وہ ’’ اسد کی حکومت کے ان ارکان کا محاسبہ کریں گے جو "شامی عوام کو اذیت دینے میں ملوث تھے۔"
ابو محمد الجولانی نے حالیہ برسوں میں، مذہبی رواداری کی حمایت کی ہے اور خود کو انتہا پسند نظریے سے دور کر لیا ہے۔ انہوں نے شام کی نسلی اور مذہبی اقلیتوں کی حوصلہ افزائی کرنے کی کوشش کی ہے، جن میں عیسائی، کرد، دروز اور علوی فرقے شامل ہیں،اسد خاندان کا تعلق علویفرقے سے ہے۔
لیکن اپنی فتح کی تقریر صدارتی محل کے بجائے دمشق میں مسجد اموی سے کر کے،جو آٹھویں صدی میں ایک سنی خلیفہ کی طرف سے بنائی گئی تھی — جولانی خطے کو اپنی اکثریتی تحریک کے بارے میں ایک پیغام دے رہے ہیں۔
امiریکن انٹرپرائز انسٹی ٹیوٹ کے ایک سینئر فیلو مائیکل روبن نے و ی او اے کو بتایا کہ ان کی تقریر 2014 میں موصل میں النوری جامع مسجد میں داعش کے پہلے (خود اعلان کردہ) خلیفہ ابوبکر البغدادی کی تقریر کی عکاسی کرتی ہے۔
روبن نے کہا،"باغیوں کے اپنے ٹیلی گرام چینل پر یہ بیانات موجود تھےکہ'ہم نے اموی مسجد کو حاصل کر لیا ہے، اس کے بعد، ہم الاقصیٰ جا ئیں گے، جو بلا شبہ یروشلم میں ہے۔' پھر، ہم'۔ کعبہ جائیں گے ،جو سعودی عرب میں ہے۔"
امریکہ کی شمولیت
صدر جو بائیڈن نے اتوار کو شام میں اسلامک اسٹیٹ کے ٹھکانوں پر 70 سے زیادہ فضائی حملوں کا حکم دینے کے بعد فوری طور پر وزیر خارجہ بلنکن کو ترکیہ اور اردن کے رہنماؤں کے ساتھ مشاورت کے لیے بھیجا ۔
بائیڈن نے کہا، " امریکہ شام میں اپنے شراکت داروں اور اسٹیک ہولڈرز کو خطرات سے نمٹنے کے ایک موقع سے فائدہ اٹھانے میں مدد دینے کےلیے ان کے ساتھ مل کر کام کرے گا ۔"
20 جنوری 2025 کو، بائیڈن کی جگہ منتخب صدر ڈونلڈ ٹرمپ اقتدار سنبھال لیں گے، جو عندیہ دے رہے ہیں کہ وہ چاہتے ہیں کہ امریکہ شامی تنازع سے باہر رہے۔
ٹرمپ نے سوشل میڈیا پر کہا کہ یہ ہماری لڑائی نہیں ہے۔ "اسے چلنے دیں۔ شامل نہ ہوں!"
لیکن امریکہ پہلے ہی تنازعہ میں شامل ہے۔ شام میں اس کے تقریباً 900 فوجی تعینات ہیں اور وہ ایک شامی کرد باغی گروپ کی حمایت کرتا ہے۔ واشنگٹن کے شام کے پڑوسی ملکوں، عراق اور لبنان کے ساتھ ساتھ اتحادیوں اسرائیل اور اردن، اور نیٹو کے اتحادی ترکیہ کے ساتھ بھی قریبی تعلقات ہیں۔
شام، عراق اور لبنان کے لیے امریکہ کے سابق سفیر رائین کروکر نے کہا ہے کہ، "شام میں جو کچھ ہوتا ہے اس کا ان پر براہ راست اثر پڑتا ہے اور شام میں جو کچھ ہو رہا ہے، بہتری کے لیے یا بدتری کے لیے وہ اس پر اثر انداز ہونے کی پوزیشن میں بھی ہیں ۔‘‘
انہوں نے وی او اے سے بات کرتے ہوئے کہا کہ "مکمل طور پرالگ نہ ہوں، یقیناً نہیں۔" "لیکن اگر، ریاستہائے متحدہ امریکہ خود کو ضرورت سے زیادہ انگیج نہیں رکھنا چاہتا، تو یہ وقت ہے کہ خطے کے ساجھے داروں کے ساتھ قریبی طور پر مل کر کام کیا جائے۔"
ٹرمپ کے "امریکہ فرسٹ" نظریے کے تحت، یہ واضح نہیں ہے کہ آیا امریکہ اپنی سفارتی کوششوں کا رخ اس جانب کرے گا۔ جو بائیڈن چاہتے ہیں، مستقبل کی ایک ایسی شامی حکومت جو جامع اور غیر فرقہ وارانہ ہو۔
فورم